• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری نظامِ حکومت میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہر جماعت اپنا ایک بیانیہ ترتیب دیتی ہے اور عوام میں یہ بیانیہ کچھ اِس طرح سے پھیلایا جاتا ہے جس سے عوام کی اکثریت کو یہ یقین ہو جائے کہ حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت کا ہر اقدام عوام کے مفاد کے منافی ہے، حکومت کرپٹ ہے، عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو ذاتی عیاشیوں کے لئے استعمال کرتی ہے اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور عالمی سطح پر ہونے والی ناکامی کی اصل وجہ ایک نااہل، ناکام اور کرپٹ حکومت ہے۔ یہ بیانیہ اپوزیشن جماعت کو کچھ اس طرح ترتیب دینا ہوتا ہے کہ عوام حکومت سے نالاں ہوجائیں اور حکومت کو وقت سے پہلے گرایا جا سکے، اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہ کر سکیں اور اگلے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعت انفرادی طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کرکے یا اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرسکے، پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو واضح ہوگا کہ ماضی میں کچھ اس طرح ہی ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعت کے طور پرمیاں نواز شریف کی حکومت کو ایک پل سکون کا سانس نہیں لینے دیا، جلسے جلوس، کرپشن کے الزامات، احتساب کا مطالبہ، تاریخی دھرنا، غرض اپوزیشن جتنی زیادہ متحرک ہو سکتی تھی ہوئی اور پھر پہلے مرحلے میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے اقامہ رکھنے کے الزام پر فارغ کروایا گیا اور اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف پہلی دفعہ اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی اور اپنی حکومت کے قیام کے پہلے ہی دن سے اپوزیشن جماعتوں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں شامل ہیں، اسی مخالفت کا سامنا کررہی ہے اوریہ جماعتیں وہ نعرے لگا رہی ہیں جو ماضی میں خود بطور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف حکومت کے خلاف لگایا کرتی تھی۔ آئیے آج ماضی کی اپوزیشن جماعت تحریکِ انصاف کے اس وقت کی ن لیگی حکومت پر لگائے گئے چند الزامات کا جائزہ لیتے ہیں۔ حکومت کی نااہلی کے سبب جب روپے کے مقابلے میں ڈالر ایک روپے گرتا ہے تو قوم سو ارب روپے کی مقروض ہوجاتی ہے، عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت کم ہونےکے باوجود حکومت پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ، عوام سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں اور بلوں کو آگ لگا دیں۔ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنادیں گے اور گورنر ہائوس کی دیواریں گرادیں گے۔

لاہور میٹرو بس منصوبہ بہت مہنگا بنا کر کک بیک وصول کئے گئے ہیں، حکمرانوں نے لوٹی ہوئی دولت دو نمبر طریقے سے بیرون ملک منتقل کی ہے، غرض ایسے درجنوں الزامات تھے جو اس وقت بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان نے اس وقت کے وزیراعظم اور ان کی حکومت پر عائد کئے، پھر کیا ہوا وقت تبدیل ہوا اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور اب اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر وہی الزامات عائد کررہی ہیں جو ماضی میں وہ اس وقت کی حکومت پر عائد کرتی رہی ہے، مثال کے طورپر اس وقت امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 172روپے سے بھی زائد پر موجود ہے، ن لیگ دورِحکومت میں 105روپے کا ہوا کرتا تھا، اپوزیشن پوچھتی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریباً 68روپے کمی ہوئی ہے عوام کو ہونے والے اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے دلدل میں کیوں دھنسایا گیا؟ پیٹرول کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیوں آگئے، بجلی کے نرخ کیوں بڑھائے گئے، کرپشن کی عالمی رینکنگ میں پاکستان مزید نیچے کیوں آگیا، عالمی سطع پر پاکستان تنہا کیوں رہ گیا، سی پیک منصوبہ کیوں سست روی کا شکار ہوا، چین کیوں پاکستان سے ناراض ہے، امریکی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف قرارداد کس بات کا مظہر ہے، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیوں، تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کا فیصلہ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کیوں؟ غرض آج کی حکومت کو بھی کم و بیش ان الزامات کا ہی سامنا ہے جو ماضی میں یہ بطور اپوزیشن سابقہ حکومت پر عائد کرتی رہی، یہ ایک سیاسی سائیکل ہے اگلے انتخابات ہوں گے پھر نئی حکومت قائم ہوگی اسے بھی اس طرح کے الزامات کا ہی سامنا کرنا پڑے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کے حالات کب بہتر ہوں گے؟ غریب کب غربت کی سطح سے باہر نکلے گا؟ پاکستان کب ترقی کا سفر شروع کرے گا؟ پاکستانی قوم کب دنیا میں خوشحال قوم کہلائے گی؟ عوام کے دکھوں کا علاج جھوٹے وعدوں کے بجائے حقیقی مرہم سے کب کیا جائے گا؟ عوام جواب جاننا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین