• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظریاتی سرحدوں کے ’’محافظ‘‘ ڈاکٹر صفدر محمود

مجھے یاد نہیں تحریکِ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ڈاکٹر صفدر محمود سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟ البتہ مجھے اتنا یاد ہے جن دنوں وہ محکمہ مذہبی امور کے وفاقی سیکرٹری تھے، ان سے اکثر و بیشتر بلکہ ہر دوسرے تیسرے روز ملاقات ہوتی تھی۔ ان سے ملاقاتوں کی ایک وجہ پیشہ ورانہ تعلق تھا۔ میں نے کم و بیش چار عشروں تک وفاقی وزارتِ مذہبی امور کو کور کیا ہے لہٰذا میں ان دو تین اخبار نویسوں میں سے ایک تھا جن کی ڈاکٹر صفدر محمود تک براہِ راست رسائی تھی، جن کو انہوں نے اپنا ذاتی نمبر دے رکھا تھا، حج و عمرہ کے بارے میں کسی ’’اہم خبر‘‘ کی تلاش ہوتی تو ڈاکٹر صاحب کو فون کر لیتا تھا۔ اسلام آباد میں بار ہا ان کے تحریکِ پاکستان کے حوالے سے لیکچر سننے کا موقع ملا، ان سے تحریک پاکستان بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات پر بھی رہنمائی حاصل ہوتی۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، محقق بھی تھے اور تاریخ دان بھی۔ اہم قومی موضوعات پر کالم نویسی ان کا شغف تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا شمار پاکستان کے ان چند بیوروکریٹس میں ہوتا ہے جن کا دامن کرپشن سے پاک رہا۔ ان سے ملاقات کی دوسری وجہ ان کا علمی مرتبہ تھا،وہ علمی لحاظ سے بلند مقام رکھتے تھے، ان کا علم ہر ایک کو ان کی طرف کھینچ لاتا تھا۔ ان سے ایک بار ملاقات کرنے والا ان کی طرف بار بار کھنچا چلا جاتا تھا۔ میرے دل میں ان کے لئے قدر ان کا تحریکِ پاکستان کے ’’محافظ‘‘ کا وہ کردار تھا جو انہوں نے نظریاتی محاذ پر ادا کیا۔ وہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے ’’بےتیغ‘‘ سپاہی تھے جنہوں نے اپنے قلم کو قائداعظم اور علامہ اقبال کی فکر کی نفی کرنے والوں کے خلاف تیزدھار ’’تلوار‘‘ کے طور پر استعمال کیا اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک نظریہ پاکستان کے دشمنوں سے لڑتے رہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود 30دسمبر 1944کو گجرات کے گاؤں ڈنگہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اور 1974میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی جب کہ 1978میں سول سروس کے لئے منتخب ہو گئے۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹڈیز میں کئی برس تک وزیٹنگ لیکچرر رہے۔ پنجاب اور وفاق کے کئی محکموں اور وزارتوں میں سیکرٹری رہے، 1997میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے تین سال کیلئے رکن منتخب ہوئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم آئی ایسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن بھی رہے۔ انہیں یونیسکو کے عالمی ایجوکیشن کمیشن کا نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھیحاصل ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی خدمات پر متعدد تعلیمی اداروں میں ایم اے اور ایم فل پر مقالے لکھے گئے ہیں۔ جامعہ الازہر میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تجویز پر ڈاکٹر صفدر محمود کی علمی خدمات پر عربی زبان میں ایم اے میں ایک مقالہ لکھا گیا۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میںانہیں 1997میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیا گیا۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اندرون و بیرون ملک بھی ان کی کتب اور تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب تک ان کی بعض کتب کا جرمن، عربی، ازبک، سندھی اور چینی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے 20سے زائد کتب تحریر کی ہیں جن میں سے 6کتب انگریزی زبان میں ہیں، آئینِ پاکستان 1973کا تجزیہ اور موازنہ، مسلم لیگ کا دور حکومت 1947-54(اس تحقیق پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی)، پاکستان کیوں ٹوٹا؟ پاکستان،تاریخ اور سیاست، درد آگہی، سدا بہار، تقسیمِ ہند۔ افسانہ اور حقیقت، اقبال، جناح اور پاکستان، پاکستان۔ میری محبت، امانت، روشنی اور حکمت شامل ہیں۔

ان کا شمار پاکستان کے ان صفِ اول کے لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کا اوڑھنا بچھونا تحریکِ پاکستان کے مخالفین سے نمٹنا اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا تھا۔ انہوں نے پوری زندگی نظریاتی سرحدوں پر پہرہ دیتے ہوئے گزار دی اورقائداعظم، علامہ اقبال، تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف اٹھنے والی قلم و زبان کا تعاقب کیا، ان کی لڑائی صرف پاکستان کے لئے تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ڈاکٹر صفدر محمود بانیانِ پاکستان کے مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے یہ ان کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کو ایک سیکولر ذہن رکھنے والا لیڈر ثابت کرنے کی مذموم کوششوں کا موثر جواب دیتے رہے، پاکستان میں اب بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو قیامِ پاکستان کے مقاصد پر سوالیہ نشان اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا انتقال دراصل پاکستان کی نظریاتی فوج کے سپہ سالار کا انتقال ہے۔ انہوں نے اپنی وفات سے چندہفتے قبل مجھے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ اپنے دستخطوں کے ساتھ بھجوائی جس میں انہوں نے قائد اعظم کے بارے میں غلط بیانیوں اور تحریک پاکستان کے قائدین کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے موثر جوابات دئیے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص پاکستان اور قائد اعظم پر حملہ آور ہوتا تو ڈاکٹر صفدر محمود قلم کو شمشیر برہنہ بنا کر اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے، ڈاکٹر صفدر محمود قائد اعظمؒ اور علامہ اقبال ؒ کے دوستوں کے دوست اور ان کے دشمنوں کے دشمن تھے، ڈاکٹر صفدر محمود کی وفات سے ملک ایک عظیم پاکستانی سے محروم ہوگیا ہے، اُن کا د ل پاکستان کے لئے دھڑکتا تھا انہوں نے عمر بھر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو مضبوط بنانے پر توجہ دی ان کی وفات سے سے پاکستان کو نظریاتی محاذ پر نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے جو سالہا سال تک پورا نہیں ہوسکے گا۔

تازہ ترین