• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کا چالاک سے چالاک انسان بھی زیادہ دیر تک جعلی شخصیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔انسان کی افتادِ طبع ایسی ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے اصل نظریات، اپنی چالاکی اور بے وقوف بنانے کی صلاحیت بتانے کی خواہش رکھتا ہے۔ مذاق مذاق میں لازماً وہ ایسی باتیں کر جاتا ہے، جس سے اس کی اصل شخصیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ انسان میں دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش بھی بہت زیادہ ہے، اس لئے یہ آہستہ بولنے، آہستہ گاڑی چلانے اور شریف لوگوں پر فوراً چڑھائی کر دیتاہے۔ ایک شخص اگر کسی کو بے وقوف بنا کر آیا ہے تو وہ چھ لوگوں کو اپنا یہ کارنامہ بتائے بغیر نہ رہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے سے پہلے ہر شخص کا ظاہر و باطن لازماً آشکار ہو جاتا ہے لیکن یہ کسی بھی شخص کے اپنے ہاتھ سے ہوتا ہے۔ خدا کی طرف سے اسے یہ مہلت ضرور دی جاتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر لے۔

اللہ کی بے شمار رحمتوں میں سے ایک بڑی رحمت یہ ہے کہ وہ ستار العیوب ہے۔ وہ حتی الامکان انسانوں کے عیوب چھپاتا ہے۔ مخلوق کو بھی حکم ہے کہ ایک دوسرے کے عیب ڈھکے جائیں بلکہ اپنے بھی۔ میں اگرایک گناہ کا عادی انسان ہوں اور کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ کیا تم یہ گناہ کر تے ہو تو مجھے انکار کر دینا چاہئے۔میں اگرفخریہ کہوں کہ ہاں میں یہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کے بارے میںاعلان ہے کہ اس کی بخشش کبھی نہ ہو سکے گی، جب کہ باقی تمام لوگوں کی ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر ایک شخص اپنی کسی نیکی پر فخر شروع کر دیتا ہے، اگر اس میں زعمِ تقویٰ، دوسروں کو گناہ گار اور کمتر سمجھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو پھر اپنے گناہ پر نادم شخص اس سے کہیں بہتر ہوتا ہے۔

اسی طرح ہمیں لڑ جھگڑ کر کسی کی اصلاح سے روکا گیا ہے۔ ضروری ہو تو علم وحکمت کے ساتھ اپنے دلائل بیان کر دیے جائیں اور پھر اپنا راستہ الگ کر لیا جائے۔ سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعدمگر ہر شخص ہی نہ چاہتے ہوئے بھی غیر ضروری مباحثوں میں الجھا ہوا ہے۔ زمانہ آگے بڑھ گیا ہے۔ ہر شخص کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کمپیوٹر ہے، جس میں کیمرہ نصب ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ جو شخص بھی آپ کا مخالف ہے، اس کی قابلِ اعتراض ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر چڑھا دی جائے۔ انسان تو کمزور پیدا کیا گیا ہے اور سوائے ایک ہستیؐ کے، مکمل کوئی نہیں۔ بڑے بڑے لوگوں میں چھوٹے چھوٹے عیب پائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ تمام عیوب سے پاک ہے تو اس سے بڑا جھوٹ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کمزور انسان کے دماغ میں خواہشات کے دریا بہتے ہیں۔ کبھی کسی کمزور لمحے میں کوئی پھسل جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسانیت کے درجے سے ہمیشہ کے لئے گر چکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس شخص کے عیب کی مشہوری شروع کر دیں۔یہ مگر سکرین شاٹ کا زمانہ ہے۔ جیسے ہی آپ کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان باکس میں کی گئی بات کی تشہیر سے اس شخص پر لعنت ملامت کرائی جا سکتی ہے، آپ فوراً یہ کارِ خیر کر ڈالتے ہیں۔ مذہبی لوگ سوشل میڈیا پہ فرشتے بنے بیٹھے ہیں۔ ہر بات اس چیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جاتی ہے کہ اس پر دوسروں کی طرف سے ستائش (لائک) موصول ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریا کاری کے سمندر بہہ رہے ہیں۔ ایسے ماہرین کے ٹولے نمودار ہو چکے ہیں، جو کسی کو غصہ دلا کر، اس کے منہ سے کچھ نکلوا کر، سکرین شاٹس بنا کر لعنت فروشی کا دھندا فرما رہے ہیں۔ آپ اگردوسروں کے عیوب شائع کر رہے ہیں تو خود آپ کے ساتھ بالاخر کیا ہوگا؟

دنیا کا کوئی بھی انسان اس بات کی تاب نہیں لا سکتا کہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائیں۔ بے شمار اولادیں ایسی ہیں، جو ماں باپ کی موت کی منتظر ہیں۔ بے شمار شوہر بیویوں کو مرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ بے شمار بیویاں شوہر سے نجات چاہتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی ساری زندگی ایک ساتھ گزرتی ہے۔ خدا انہیں ڈھانپے رکھتا ہے۔ نفس ہے ہی اس قدر خود غرض اور ہوس کا مارا ہوا کہ ہم اپنی اصل سوچ کا عیاں ہونا گوارا کر ہی نہیں سکتے۔

اس ساری صورتِ حال کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ جو لشکر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو نیچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ اب کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ آپ اگرچوبیس گھنٹے آن لائن ہیں، آپ کا زیادہ تر وقت دوسروں کو ذلیل ثابت کرنے کے معرکوں میں صرف ہو رہا ہے‘ اگر آپ مذہبی ہو کر سیکولرز کی تذلیل میں مصروف رہتے ہیں یا سیکولر ہو کر مذہبی لوگوں کی تذلیل میں، تو پھر آپ کام کس وقت کرتے ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ پھر آپ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے بلکہ اسے آپ نے ’’آٹو پائلٹ‘‘ پر لگا رکھا ہے۔

آپ سوچ بچار کس وقت کرتے ہیں؟ کام کس وقت کرتے ہیں ؟ اپنی جسمانی صحت کے لئے ورزش کس وقت؟اپنے اہلِ خانہ کے درمیان بھی آپ کی اصل توجہ سوشل میڈیا ہی پہ مرکوز ہوتی ہے۔ انسانی توانائی، وقت اور وسائل تو محدود ہیں۔ جب پوری انسانیت آن لائن بیٹھی ہو تو انجام کیا ہو گا؟ کارخانوں، کھیتوں، لیبارٹریوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں عرق ریزی اور غو ر و فکر کرنے والے لوگ کہاں سے آئیں گے؟کیا یہ بہتر نہیں کہ دن کے دو گھنٹے سوشل میڈیا کے لئے مختص کر لئے جائیں ؟ باقی بائیس گھنٹوں میں انسان ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کرے ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین