• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کا حالیہ اجلاس یہ ثابت کر گیا کہ دنیا کے193 ممالک پر مشتمل اِس عالمی فورم کے ہر رُکن کے معاملات اور مسائل الگ الگ ہیں۔ نیز، ہر مُلک یا اس کا حامی گروپ چاہتا ہے کہ مسائل اُس کی مرضی ہی سے حل کیے جائیں۔مجموعی طور پر اجلاس دِل چسپی سے خالی رہا کہ تمام مُمالک کے نمایندوں نے تقریروں کے ذریعے صرف اپنی اپنی بھڑاس ہی نکالی، جسے شاید ہی کسی نے دِل چسپی سے سُنا یا اُسے کوئی اہمیت دی۔

اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکا نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے ذرا پہلے آکوس معاہدے کا اعلان کیا، جس میں اُس کے ساتھ آسٹریلیا اور برطانیہ شامل ہیں۔ دنیا پر اِس معاہدے کے اثرات کی بحث ہر معاملے پر حاوی نظر آئی۔ اِسی سلسلے میں’’ کواڈ فورم‘‘ کا اجلاس ہوا، جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کے سربراہان شریک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ترقّی یافتہ ممالک کا فوکس کورونا اور موسمیاتی تبدیلیوں پر تھا، جب کہ چھوٹے ممالک اپنے اپنے مسائل اور تنازعات میں اُلجھے نظر آئے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، عمران خان نے افغانستان کی موجودہ صُورتِ حال پر ایک طویل تقریر کی، جس میں اُنہوں نے افغانستان کی تاریخ دُہرائی۔ اُن کے ورچوئل خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ دنیا، طالبان حکومت کو سنبھلنے میں مدد دے، ورنہ کوئی نیا بحران سامنے آسکتا ہے۔‘‘

تو کیا دنیا میں اقوامِ متحدہ کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے؟ فی الحال تو ایسا نہیں ، کیوں کہ اِس کے علاوہ کوئی ایسا عالمی فورم موجود نہیں ہے، جس میں دنیا کے ہر مُلک کی نمائندگی ہو یا وہ اُن کے مسائل کا حل تلاش کرسکے۔ اب بھی اقوامِ متحدہ اور اُس کے ادارے، جیسے سلامتی کاؤنسل اور ہیومن رائٹس کاؤنسل وغیرہ دنیا میں خاصا اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ خیال تھا کہ اِس سال کے اجلاس میں افغانستان سے امریکا کی واپسی اور وہاں کی صُورتِ حال عالمی دِل چسپی کا مرکز ہوگی، خاص طور پر ہمارے ہاں جس طرح افغانستان کے مسائل اور معاملات پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے، اس سے یوں لگا کہ شاید باقی دنیا بھی اِس ایشو پر ہماری ہی طرح پریشان ہے، مگر خود وزیرِ اعظم عمران خان کو کہنا پڑا کہ’’ دنیا، افغان معاملات میں وہ دِل چسپی نہیں لے رہی، جو لینی چاہیے۔‘‘

یقیناً ہمارے لیے یہ بہت اہم معاملہ ہے، کیوں کہ پاکستان، افغانستان کی صورتِ حال کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھا چُکا ہے اور اُسے اندیشہ ہے کہ اگر وہاں معاملات بگڑتے ہیں، تو وہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔عمران خان نے دنیا سے پُرزور اپیل کی کہ وہ طالبان حکومت کو مُلکی معاملات سنبھالنے کا موقع دیں اور اس کے لیے اُن کی بھرپور اقتصادی مدد بھی کریں۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے امریکا سے خاص طور پر کہا کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہ دُہرائے۔

وہ امریکا اور دنیا سے اِس امر پر خاص طور پر شاکی تھے کہ پاکستان کو اب بھی افغان معاملے میں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، حالاں کہ اس نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔طالبان نے اپنی حکومت کی نمایندگی پر عمران خان کا شُکریہ ادا کیا ۔ وزیرِ اعظم نے مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے مظالم بھی بھرپور طریقے سے اجاگر کیے۔ اُنھوں نے دنیا سے کہا کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لے۔ وزیرِ اعظم کی تقریر کو اُن کے چاہنے والوں اور حکومتی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ تاہم، اِس سے طالبان حکومت کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے، یہ دیکھنا ہوگا۔

افغان امور پر نظر رکھنے والوں کے مطابق مُلکی استحکام اور ترقّی میں اصل کردار خود طالبان حکومت ہی کا ہوگا کہ وہ باقاعدہ طور پر حکومت قائم کر چُکے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے پہلے دوشنبے میں شنگھائی فورم کا اجلاس ہوا، جس میں وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی شرکت کی۔اس موقعے پر اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے طالبان سے بات کریں گے۔اِسی فورم سے خطاب میں چین اور روس کے رہنماؤں نے بھی طالبان کو نمایندہ حکومت کے قیام کا وعدہ یاد دِلایا۔ دنیا کا اصرار ہے کہ جب تک افغانستان میں نمایندہ حکومت قائم نہیں ہوتی، اُسے تسلیم کرنا ممکن نہیں، البتہ انسانی بنیادوں پر امداد اور رابطہ جاری رہے گا۔ 

طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اقتصادی معاملات ہیں۔امریکا، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں نے اس کے فنڈز منجمد کر دئیے ہیں، جن کی بحالی نمایندہ حکومت کے قیام سے مشروط ہے۔طالبان کو فوری طور پر فنڈز کی ضرورت ہے تاکہ مُلک معمول کے مطابق چلایا جا سکے۔اب تک افغانستان کی80 فی صد معیشت امریکی امداد ہی پر چل رہی تھی۔ مغربی امداد معطّل ہونے کے بعد چین وہ واحد مُلک ہے، جو طالبان حکومت اور افغانستان کی مدد کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کے پاس وسائل موجود ہیں۔ 

تاہم صدر شی جن پنگ نے شنگھائی فورم پر اپنی تقریر میں واضح کردیا کہ طالبان کو نمایندہ حکومت کے قیام، دہشت گردی اور منشیّات کی اسمگلنگ کے خاتمے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ پھر یہ کہ طالبان حکومت کے لیے بہتر طرزِ حکم رانی بھی کسی آزمائش سے کم نہیں۔ اُنہوں نے مُلک پر کنٹرول تو حاصل کرلیا، اب اپنے عوام کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہوگا۔ اُنھیں حکومت چلانے کے لیے ماہرین درکار ہوں گے۔ اِن ماہرین کی خدمات صرف مالیات اور آئی ٹی کے شعبے ہی کے لیے نہیں، شہروں کی صفائی ستھرائی کے لیے بھی ضروری ہیں۔جدید افغانستان کو وجود میں آئے نوّے سال ہوچُکے ہیں۔

پہلی افغان وار یعنی 1978ء سے قبل یہاں ایک شاہی طرز کی حکومت تھی اور ظاہر شاہ یہاں کے حکم ران تھے، جسے سوویت یونین کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ خبر ہے کہ طالبان اُسی دَور کا آئین کچھ تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔سوویت قبضے اور اس کے بعد پہلی افغان وار میں مُلک کا سارا انتظامی ڈھانچا تباہ ہوگیا۔ آج یوں لگتا ہے، جیسے افغانستان کی ابتدا ہی اُس جنگ سے ہوئی تھی۔جنگ سے پہلے کے چالیس سال کا کم ہی ذکر کیا جاتا ہے، حالاں کہ ظاہر شاہ کے دَور میں کابل یونی ورسٹی کے ساتھ ہر صوبے اور شہر میں تعلیمی ادارے موجود تھے۔

نائین الیون واقعے کے بعد افغانستان پر امریکا کا قبضہ ہوا اور اُس کی سرپرستی میں حکومتی نظام قائم ہوا۔تعمیر و ترقّی تو ابھی شاید بہت دُور کی بات ہے، فی الحال تو حکومتی نظام ہی طالبان کے لیے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔اُنھوں نے اٹھارہ سال کے بعد دوبارہ مُلک کی حکم رانی حاصل کی ہے۔دوحا مذاکرات کے دَوران اُن کے بیانات سے لگتا تھا کہ وہ معیشت اور دنیا کے ساتھ چلنے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔وہ افغان عوام کی بہتری اور خوش حالی کے لیے ماضی سے آگے دیکھنا چاہیں گے۔غالباً یہی وہ بیانات ہیں، جنہیں دنیا اُنھیں یاد دِلا رہی ہے۔

جرمنی کے انتخابات میں توقّع کے عین مطابق کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔ بائیں بازو کی معتدل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کو کانٹے کے مقابلے کے بعد شکست دے دی۔ہارنے والی جماعت ،انجیلا مرکل کی ہے۔ایس ڈی پی نے25.7 فی صد، جب کہ حکم ران قدامت پسند جماعت سی ڈی پی نے24.1 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ گرین پارٹی نے سرپرائز دیا اور اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ ووٹ یعنی 14.1 فی صد ووٹ لے کر تیسری بڑی جماعت بن گئی۔

اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی میں کلائمیٹ چینج اور گرین انرجی کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔اب حکومت سازی کے لیے طویل مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انجیلا مرکل کرسمس تک کہیں نہیں جارہیں، کیوں کہ اِس سے قبل سے حکومتی اتحاد بننا ممکن نظر نہیں آتا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ انجیلا مرکل کے جانشین کو یورپ کی سب سے مضبوط معیشت کی قیادت کرنا ہوگی اور اب اس کے ساتھ، موسیماتی تبدیلی جیسے معاملات بھی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ایس ڈی پی کے سربراہ نے کہا کہ’’ جرمن عوام نے اُن کی پارٹی کو نئی حکومت بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے۔‘‘ 

تاہم سی ڈی پی کے سربراہ نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ’’ اُن کی اکثریت صرف اتحاد کی کوششوں تک ہے۔‘‘یعنی جرمنی میں حسبِ سابق اتحادی حکومت ہی بنے گی۔ چوں کہ وہاں اِس طرح کی حکومتوں کا رواج ہے، اِس لیے اتحادی حکومت کسی بحران کا باعث نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے مُلکی معیشت یا ترقّی پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی یہ ترقّی کم ہی ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ کم مارجن کی جیت کے باوجود حکومت بنانا اور اسے قائم رکھنا مشکل نہ ہو۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کی مہم الیکشن ہی تک محدود رکھتی ہیں۔ کرپشن ہو یا کوئی اور سیاسی معاملہ، اسے اِس حد تک نہیں کھینچا جاتا کہ انتقام کا تاثر قائم ہو۔نیز، اختلافات دشمنی میں نہیں بدلے جاتے۔اپوزیشن اور حکم ران جماعت دونوں مُلکی نظام میں حصّے دار ہوتی ہیں۔دوسری طرف، وہ خارجہ امور کو اِتنی اہمیت نہیں دیتے کہ ملّی معاملات اور مسائل پس منظر میں چلے جائیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُسے انتخابات میں نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔انجیلا مرکل جیسی مقبول حکم ران کو بھی یہ تجربہ ہوا، جب اُنہوں نے عوام کی مرضی کے برعکس عرب اور افغان تارکینِ وطن کے لیے اپنے مُلک کے دروازے کھول دیے۔

یہ جرمن عوام کی فطرت میں نہیں ہے کہ وہ دوسری اقوام یا مہاجرین کو اپنے معاشرے کا حصّہ بنا لیں۔ مرکل کو جرمن معاشرت کا یہ پہلو نظر انداز کرنے کی سزا ملی اور اُن کا سیاسی کیرئیر اختتام پذیر ہوا۔ اِس میں یہ پیغام بھی ہے کہ کوئی بھی مُلک یا لوگ اپنے عوام سے زیادہ اہم نہیں اور رہنماؤں کا فوکس صرف اپنے عوام کی خوش حالی ہی پر ہونا چاہیے۔جرمن سیاست میں یہ تبدیلی بھی سامنے آئی کہ اب صرف دو جماعتیں ہی قیادت یا حکم رانی کے لیے میدان میں موجود نہیں ہیں۔ 

گرین پارٹی بھی، جو انتخابات سے قبل کسی گنتی میں نہیں تھی، اب قیادت کی دوڑ میں شامل ہوگئی ہے اور اُسے مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے پیش کشیں ہو رہی ہیں۔ یہ پارٹی30 سال سے کم عُمر ووٹرز میں بہت مقبول ہے۔ شاید اِس بار تین جماعتی اتحاد حکومت بنائے، جس میں سرخ ایس پی ڈی،پیلی سی ڈی پی اور سبز ایف ڈی پی شامل ہوں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو جرمنی ایک نئے جمہوری دَور میں داخل ہوجائے گا۔

تین کروڑ، بیس لاکھ آبادی پر مشتمل افریقی مُلک، مراکش میں ہونے والے انتخابات نے بہت کچھ بدل ڈالا، کیوں کہ حکم ران جماعت، ڈویلپمنٹ اینڈ جسٹس پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شکست بھی ایسی کہ اس کے سربراہ اور نائب سربراہ، دونوں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہار قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ مراکش افریقا کے ساحل پر واقع ایک اہم مسلم مُلک ہے۔ ایک طرف بحیرۂ روم، دوسری طرف بحرالکاہل اور بیچ میں 13 کلو میٹر کی آبی گزر گاہ آبنائے جبل الطّارق ہے۔وہاں بادشاہت قائم ہے، لیکن نظامِ حکومت یک ایوانی جمہوری پارلیمانی ہے۔ شاہ محمّد حسن چہارم مراکش کے بادشاہ ہیں۔

نیشنل ریلی آف انڈیپنڈنٹس نے سب سے زیادہ ووٹ لیتے ہوئے125 نشستیں حاصل کیں، جب کہ حکم ران جماعت جے ڈی پی کو صرف12 نشستیں ملیں۔ این آر آئی کے سربراہ، عزیز اخنوش نے، جو ایک ارب پتی تاجر ہیں، جیت کے بعد کہا کہ وہ بادشاہ کی پالیسی پر عمل درآمد کریں گے۔جے ڈی پی 2011 ء میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی اور اُسے’’ عرب اسپرنگ‘‘ سے بہت فائدہ پہنچا تھا۔جے ڈی پی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مِصر کی الاخوان المسلمون جیسے نظریات کی حامل ہے۔

جب وہ دس سال قبل اقتدار میں آئی، تو مراکش کے عوام سمجھتے تھے کہ ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے اور تبدیلی آگئی ہے۔2016 ء کے انتخابات میں اُس کی مقبولیت نہ صرف برقرار رہی، بلکہ اُس کے ووٹس میں اضافہ بھی ہوا، اِسی لیے حالیہ بدترین شکست نے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جے ڈی پی اپنے انتخابی وعدے پورے نہ کرسکی اور مُلک بحران کی طرف جانے لگا تھا۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی، جس کے نام میں انصاف اور ترقّی شامل ہے،یہ دونوں چیزیں دینے میں ناکام رہی۔ اُس نے عوام کو غربت سے نکالنے، تعلیم اور صحت کا نظام بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ کام نہیں ہو سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اقتدار سے پہلے تو یہ شاہی نظام کے خلاف تھی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد شاہ کی وفادار بن گئی۔ ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ اصل طاقت تو شاہ کے پاس تھی، وہی دفاعی اور خارجہ پالیسی کنٹرول کرتے تھے۔ اِس لیے اقتدار میں آنے کے باوجود پارٹی کے اختیارات بہت محدود رہے۔

تازہ ترین