• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 

پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کے تناظر میں واشنگٹن کی طرف سے پاکستان پر دوغلے ہونے کا الزام یکسر بےبنیاد ہے۔ ٹھوس حقائق کا مفصل ریکارڈ مکمل واضح کرتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ، علاقائی یا بین الاقوامی سطح کے جو دفاعی معاہدے ہوئے، وہ امریکہ نے باہمی مفادات کی بنیاد پر دیانت داری سے کئےہی نہیں لیکن پاکستان نے یہ معاہدے بڈابیر کے ایئر بیس سے روس کی الیکٹرونک جاسوس سے لے کر افغانستان پر مسلط وار آن ٹیررکے خطرات تک مول لے کر نبھائے۔ جہاں امریکہ کی نہیں مانی جا سکتی اور نہ نبھائی جا سکتی تھی وہاں کھل کر یا سفارتی طریقے و سلیقے سے اس کی مزاحمت کی۔ جیسے ایٹم بم نہ بنانے کے لئے امریکی دبائو پر، اور جب بن گیا تو ٹیسٹ سے باز رہنے کے لئے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کی مزاحمت جو پاکستان کی ہر حکومت نے کی حالانکہ اس وقت تو پاکستان کی اقتصادی کے ساتھ دفاعی حالت بھی آج کے مقابل بہت کم تھی۔ کیا امریکی انتظامیہ کے متعلقہ اداروں اور تھنک ٹینکس نے کبھی کوئی ایسی سائنسی تحقیق کی ہے؟ کہ جب سے وہ (دوسری جنگ عظیم کے بعد) ’’سپرپاور‘‘ بننے کے لئے اپنی جغرافیائی دوری کو نظر انداز کرکے بین الاقوامی تعلقات بمطابق قائم کرنے کے لئے جارحانہ سفارت کاری کا آغاز کرنے کی طرف آیا اور اب اس کا بڑی بلکہ ’’تنہا بڑی طاقت‘‘ کا تشخص افغانستان کے دلدل میں پھنس کربری طرح مجروح ہونے تک، ساڑھے سات عشروں میں اس کا سب سے نتیجہ خیز دفاعی پارٹنر کون ثابت ہوا؟ نہیں کیا تو یہ علم و تحقیق کے مرکز و محور کا ڈیزاسٹر ہے۔ اگر ایسی کوئی تحقیق ہوئی اور جواب پاکستان کے سوا کوئی اور ہوا تو یہ تحقیق سائنسی نہیں ہوگی۔ اگر امریکہ اس راز سے واقف ہونے کے بعد بھی اس کا کھلا اعتراف نہیں کرتا، تو جو سلوک وہ پاکستان سے کرتا آ رہا ہے اور تادم اپنے دوغلے پن سے ہی پاک، امریکہ تعلقات کو چلائے رکھنے کو اپنی کامیاب سفارت کاری سمجھ رہا ہے تو یہ بھی واشنگٹن کا بڑا سفارتی ڈیزاسٹر ہے۔ امریکہ کو براہِ راست تو سلامتی کا خطرہ کیوبا میں روسی میزائلوں کی تنصیب کے بعد تو کبھی نہیں رہا۔ اس کے بعد بھی سرد جنگ میں ’’روسی کشور کشائی‘‘ کا اختتام ہی اس کا اولین اور سب سے بڑا سفارتی ہدف رہا۔

مانیں یا نہ مانیں، امریکی حکومتیں، منتخب ایوان یا ان کے تھنک ٹینکس اور متعلقہ اسکالرز اعتراف میں کتنی ہی کنجوسی کر لیں یا یہ ان کی کوئی بڑی ’’سفارتی مجبوری‘‘ ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی تعلقات کی جو جارحانہ پریکٹس ہوئی اس میں بیک وقت جنگ اور سفارت کاری کا سب سے بڑا معرکہ ’’جہادِ افغانستان‘‘ ہی ثابت ہوا جو امریکہ کے لئے اپنے مقابل عالمی بڑے نظریاتی حریف سوویت یونین کے خلاف امریکی عسکری و مالی معاونت سے افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے باہمی مفادات کے حصول کے لئے لڑا گیا۔ افغانستان کی آزادی کے لئے سوویت یونین کی فوج کو پاکستانی سرحدوں سے دور رکھنے اور جملہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے وسعت پذیری کے بڑے جارحانہ ایکشن (افغانستان پر قبضہ) کو بڑی سوویت شکست سے دوچار کرنا، تینوں بڑے فریقین کے انتہائی بنیادی اور وسیع تر باہمی قومی مفادات کا ناگزیر مشترکہ تقاضہ بن گیا تھا لیکن اس جہاد (افغانستان اور پاکستان کے لئے) جنگ یا انتہائی نتائج دینے والی مزاحمت (امریکہ اور مغربی حلیفوں کی نظر میں) کی بنیاد نہتے افغان عوام نے قابض سوویت اور کٹھ پتلی کمیونسٹ حکومت کی افواج کے خلاف جیسی تیسی مسلح مزاحمت سے ڈالی تھی۔

کرشمہ یہ ہوا کہ قبائل میں بٹے افغان عوام کا جذبہ جہاد قبضہ ہوتے ہی مجاہدین کے سات رکنی اتحاد کی شکل اختیار کر گیا جو جہاد کا پولیٹکل بیس بھی بن گیا۔ امریکہ کو پاکستان کی جانب یوٹرن لینا پڑا تو پاکستان نے اپنی سلامتی کے خطرے کو کمال نتیجہ خیز سفارتی ڈیزائن میں ڈھال دیا نتیجہ افغانستان سے روس کےتباہ کن انخلا سنٹرل ایشیا میں سوویت پنجرے میں بند مسلم ریاستوں جبراً کمیونسٹ بنائے گئے مشرقی یورپی ممالک، بالٹک کی محبوس ریاستوں، جارجیا کی آزادی اور دیوار برلن کے انہدام کی صورت میں نکلا۔ اس ’’عظیم تر معرکہ حق‘‘ میں امیر اسلامی ممالک کی بھرپور مالی مدد، پھر حکومت سے بالا پاکستانیوں اور کتنے ہی اسلامی ممالک سے آئے مجاہدین کی افغان مجاہدین کے ساتھ جہاد میں عملاً شرکت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ متصادم نظریاتی حلیف کی اہداف سے بالا شکست نہیں سوویت یونین کے خاتمے کے علاوہ اس کا خود ’’تنہا عالمی طاقت‘‘ کا درجہ حاصل کرنا امریکہ کے لئے تین ممالک کے باہمی مفاد کی مشترکہ عسکری و سفارتی جدوجہد کا اتنا بڑا صلہ تھا جو فقط ’’افغانستان سے روسی افواج کے انخلا‘‘ سے کہیں عظیم تر ہے لیکن امریکہ آنے والے وقت میں اسے سنبھال نہ پایا، بعد ازاں پاکستان اور افغانستان سے امریکی سفارتی رویہ امریکی حکومت کا بڑا سفارتی ڈیزاسٹر ثابت ہوا۔

امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر اور کلیش آف سولائزیشنز کی گھمبیر راہیں اختیار کرنے پر جو طویل بدترین اور انتہائی پیچیدہ صورتحال جنگ یا جہاد افغانستان کے تینوں فریقوں افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے لئے پیدا ہوئی، اس کے دور رس نتائج 9/11اور افغانستان میں امریکہ کے 20سالہ خسارے ہی خسارے اور مہلک چالاکیوں کے بعد نکلے۔ اس کا منظر دنیا بھر نے امریکی سینیٹ میں ’’افغانستان ہیئرنگ‘‘ کی طویل ٹی وی ٹرانسمیشن میں عسکری قیادت کے پارلیمانی احتساب کی شکل میں دیکھا، ارکان کے پریشان کن سوالوں کی بوچھاڑ اور شکست و شرمساری میں ڈوبے بوجھل جوابی ابلاغ نے ناکامیوں کی ساری داستان تو بیان کردی۔ خبریں تو عسکری یاسیاسی حکمت عملی کی ناکامی کے حوالے سے ہی بنیں، لیکن ہر دو انتظامیہ (ٹرمپ اور بائیڈن) کے سیاسی ڈیزاسٹر کی داستان ابھی کھل کر سامنے نہیں آئی، کیونکہ ابھی تو ابتدائی سا احتساب سیاست دانوں نے عسکری قیادت کا ہی کیا ہے۔ حکومتوں کے ٹرائل میں میڈیا کھلا نہیں، بلکہ ’’قومی مفاد اور امیج‘‘ کی فکر اور احتیاط میں مبتلا یا ’’بڑا ذمے دار‘‘ معلوم دے رہا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کو پھر وقفے وقفے سے ’’افغانستان میں پیچھے چھوڑے دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے اور اس سلسلے میں کسی کو اعتماد میں نہ لینے کی دھمکیاں بدستور جاری ہیں۔ کتنے بڑے خسارے کے بعد یہ ابلاغ کتنا ہی بڑا سفارتی اور سیاسی ڈیزاسٹر ہے؟ حیرت ہے ناکہ امریکہ کو کیا ہوگیا۔ جہاں تک پاکستان اور افغانستان کا تعلق ہے، دونوں ہی امریکی سفارتی،سیاسی اور عسکری ڈیزاسٹر کے جانی، مالی اور نفسیاتی اعتبار سے ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار بنے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین