• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے شہر آگرہ میں پیدا ہونے والے ممنون حسین پاکستان کے نئے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ پرانے صدر آصف علی زرداری نے نئے صدر ممنون حسین کو ان کی کامیابی پرمبارکباد پیش کی ہے حالانکہ زرداری صاحب کی پارٹی نے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔وزیر اعظم نواز شریف کاکہنا ہے کہ وہ زرداری صاحب کو بڑی عزت کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کریں گے۔نواز شریف صاحب کو ممنون حسین کی کامیابی بہت مبارک ہو لیکن پاکستان کے مسائل زدہ عوام یہ پوچھ رہے ہیں کہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنے دو ماہ گزرگئے وہ زرداری دور کی پالیسیاں کب رخصت کریں گے؟ جس دن ممنون حسین صدر بن رہے تھے اس دن ڈیرہ ا سماعیل خان جیل پر حملہ ہواو ر248قیدی فرار ہوگئے ۔ پچھلے سال اپریل میں بنوں جیل پر حملہ ہوا تھا جس میں400قیدی فرار ہوگئے تھے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی نگرانی میں بنوں جیل پر حملے کی جوڈیشل انکوائری کی گئی۔انکوائری رپورٹ صوبائی حکومت کے حوالے کردی گئی لیکن مرکز میں موجود زرداری حکومت نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ اس ا نکوائری رپورٹ کو دبا دو لہٰذا بنوں جیل پر حملے کی انکوائری رپورٹ کے ساتھ وہی کیا گیا جو ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ کیا گیا، اگر اس رپورٹ کو منظر عام پر لاکر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی تو صرف ایک سال کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ نہ ہوتا۔ بنوں جیل پر حملہ کرنے والے بھی گاڑیوں میں سوار ہو کر آئے اور کئی چیک پوسٹوں کو آسانی سے عبور کرتے رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کرنے والے بھی گاڑیوں میں آئے اورگاڑیوں میں واپس گئے۔ اب اگر کسی نے یہ سوال اٹھادیا کہ حملہ آور تمام چیک پوسٹوں کو آسانی سے کیسے عبور کرتے رہے تو سوال اٹھانے والے کو غدار اور پاکستان کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے۔ زرداری دور میں بھی پاکستان کی سلامتی کے لئے بڑھتے ہوئے خطرات کی وجوہات پر سوال اٹھانے والوں کو غدار کہا جاتا تھا یہاں تک کہ خفیہ اداروں سے ہر ماہ کروڑوں روپے وصول کرکے حب الوطنی کے دعوے کرنے والے صدر زرداری کو بھی غدار قر ار دے ڈالتے تھے۔ نواز شریف صاحب کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ خفیہ اداروں کی رقوم پر پلنے والے نا صرف نواز شریف کو بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی انواع و اقسام کے الزامات سے نواز رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ الزامات لگانے والوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح جنرل پرویز مشرف سے ضرور بنتا ہے۔ الزام لگانے والوں کو یا تو مشرف دور میں آئی ایس آئی سے پیسے ملتے تھے یا وہ مشرف کی حکومت میں وزیر بنائے گئے یا انہوں نے مشرف کے ساتھ این آر او معاہدے پر دستخط کئے۔ ایک طرف تو سابق فوجی ڈکٹیٹر کو سید مشرف کہنے والے نواز شریف اور عدلیہ پر برس رہے ہیں۔ دوسری طرف دس سال تک مشرف کا ساتھ دینے والی ایم کیو ایم نے صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ(ن)کے امیدوار ممنون حسین کی حمایت کی۔ مشرف کے کچھ سابقہ ساتھی اس کوشش میں ہیں کہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور کچھ دیگر جماعتوں کو اکٹھا کرکے عید الفطر کے بعد مسلم لیگ (ن)سے سڑکوں پر دو دو ہاتھ کئے جائیں۔ مشرف کے سابقہ ساتھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے ستائے عوام کو سڑکوں پر لاکروہ نواز شریف کو رخصت کردیں گے۔ وہ بھول رہے ہیں کہ چار صوبوں میں چار مختلف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ حکومت ختم ہوئی تو صرف ایک پارٹی کی ختم نہیں ہوگی سب کی حکومتیں ختم ہونگی اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپس میں لڑنے کی بجائے مشرف دور کی پالیسیوں کو ختم کرنے کیلئے سب متحد ہوجائیں۔ یہ سازشیں سب کی تباہی کا باعث بنیں گی۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جن لوگوں کے دور میں شمسی ائر بیس امریکہ کے حوالے کرکے پاکستان کے اندر ڈرون حملے شروع کرائے گئے ،جس دور نے پاکستان کو خود کش حملوں اور این آر او کے عذاب سے دوچار کیا اس دور کے سابق وزراء کس منہ سے عوام کو سڑکوں پر آنے کی ترغیب دے رہے ہیں؟ حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف صدارتی الیکشن میں ناراض ہونے والی جماعتوں کی قیادت کو منائیں۔ ان کے ساتھ ذاتی ملاقاتیں کریں اور عید کے بعد جلد از جلد سب کو ساتھ بٹھا کر دہشتگردی کے خلاف مشرف کی پالیسیوں سے جان چھڑائیں۔ نئی پالیسی بنائی جائے جو مکمل طور پر صاف و شفاف ہو۔ نواز شریف کو کرپشن کے بارے میں ایک ایسی پالیسی اختیار کرنی ہوگی جس کی شفافیت پر کسی کو کوئی شک نہ ہو، اگر مشرف اور زرداری دور میں اربوں روپے کے ناجائز ٹھیکے حاصل کرنے والے ان کے اردگرد نظر آئیں گے تو پھر آہستہ آہستہ میڈیا میں ایسے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں جن کے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے پاس کوئی جواب نہیں ہونگے۔ بجلی چوروں اور گیس چوروں کے خلاف حکومت کے اقدامات قابل تحسین ہیں لیکن یہ چھوٹے چور ہیں آپ کو بڑے چوروں پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے اگر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم بند کمروں میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانے سے گریز کیجئے۔ آپ کو وزیر اعظم ان ارب پتی حضرات کی دولت نے نہیں بلکہ عوام نے بنایا ہے۔ حکومت بننے کے دو ماہ کے اندر اندر عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو ہے سچ تو یہ ہے کہ آپ کے دشمن بہت طاقتور ہیں۔ ان طاقتور دشمنوں کے مقابلے کے لئے نئی حکومت کو جس سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہ صدارتی الیکشن میں نظر نہیں آئی۔ آنے والے دن بہت اہم ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے بعد ستمبر میں نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات کا امکان نظر آرہا ہے۔ منموہن سنگھ کے ساتھ نواز شریف کو محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پرویز مشرف نے منموہن سنگھ کو خوش کرنے کے لئے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکرچھوڑ دیا تھا، زرداری صاحب کی کشمیر پالیسی بھی وہی تھی جو مشرف کی تھی لیکن نواز شریف کو مشرف کی کشمیر پالیسی سے جان چھڑانا ہوگی۔ بھارت کے ساتھ امن کی خواہش بہت اچھی بات ہے لیکن یاد رکھیں کہ امن کی آشا مشرف کے دور میں آئے تو سب ٹھیک رہتا ہے لیکن نواز شریف کے دور میں ابھرے تو غداری بن جاتی ہے۔امن کی آشا کا مطلب کشمیر پر سودے بازی نہیں بلکہ امن کی آشا کا مطلب مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا حل ہے جو پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے لئے قابل قبول ہو۔ مشرف بھلے منموہن سنگھ کے ساتھ مل کر کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پررضا مند ہوجائیں ،وہ سو دفعہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو اسلام آباد بلا کر کشمیر کا مستقبل قرار دیں انہیں کوئی غدار نہیں کہہ سکتا لیکن نواز شریف یہ سب نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کوئی معمولی غلطی بھی کرڈالی تو ہر طرف ہاہاکار مچادی جائے گی۔ میری ذاتی رائے میں منموہن سنگھ کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ آج بھی پرویز مشرف کی کشمیر پالیسی کو درست سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مشرف کے ساتھ مل کر 2007ء کے وسط میں مسئلہ کشمیر کا حل پیش کرنے والے تھے لیکن اس دوران مشرف نے چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کی غلطی کرڈالی اور وکلاء تحریک شروع ہوگئی۔ اس وکلاء تحریک نے کشمیریوں کو ایک بہت بڑے صدمے سے بچالیا۔ نواز شریف کو بھارت میں نئے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس دوران پاکستان کے حالات بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور پاکستان کے حالات کی بہتری مشرف دور کی پالیسیوں کی رخصتی سے مشروط ہے۔ ان ملک دشمن پالیسیوں کی رخصتی کے لئے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی قوتوں کو متحد کرنا از حد ضروری ہے۔ اس اتحاد کے لئے عمران خان کی ایک چھوٹی سی شرط ہے کہ اے پی سی سے قبل ان کی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہونی چاہئے ۔اس ملاقات میں کوئی حرج نہیں ایسی ملاقاتیں چاروں وزرائے اعلیٰ سے کی جاسکتی ہیں۔ تلخیاں بھلائیے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھئے۔
تازہ ترین