• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ مسلح جنگ جو کراچی میں آئی سی آئی پل سے لیکر کراؤن سینما کے عقب کی چھوٹی و تنگ گلیوں میں بظاہر دو برادریوں یعنی کچھی اور بلوچ مسلح گروہوں کی درمیان لڑی جا رہی ہے کوئی بعید نہیں کہ اس جنگ کے منفی طور پر دوررس، انتہائی خطرناک نتائج خود شہر کراچی، صوبہ سندھ اور ملک تو کیا علاقے یا ریجن کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہوں۔ اس گروہی مجرمانہ جنگ جس میں ایک مخصوص آبادی یعنی کچھی آبادی کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے لیاری میں اپنے صدیوں کے آبائی علاقے، ہمسائے اور گھر چھوڑ کر اندرون سندھ کی درگاہوں پر کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار جاکر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ بھی محض وقت کی بات ہے کہ ان کچھی متاثرین پر اب تک ضمیر اقوام عالم یا عالمی میڈیا کی نظر نہیں پڑی اور نہ ہی اب تک یہ آئی ڈی پیز یا انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسنز دوسرے الفاظ اپنے ہی وطن میں بے وطن قرار دیئے گئے۔ اس جنگ میں گرتی لاشوں پر احتجاج کا مرکز ماری پور کی شاہراہ بنی ہوئی ہے جو نیٹو کی افغانستان کو سپلائی لائن بھی ہے۔
سندھی ساگر المعروف بحیرہ عرب پر کراچی پورٹ کی جب تعمیر ہوئی تب سے ہی اس کے دنوں جانب، بائیں جانب میری ویدر ٹاور سے متصل لیاری اور کھارادر کے بیچ جاتی آج کی بہار کالونی کے دنوں جانب گلیوں میں تب سے برطانوی عہد سے ہی بلوچ اور کچھی آبادیاں آباد ہوتی گئیں۔ بھارت کے کَچھ بھی اور آج کے پاکستانی تھر سے نقل مکانی کر کے آئے ہوئے کچھی اور کچھی لہجہ بولنے والے سندھی لوگ اور سرباز، چاہ بہار، کیچ مکران یہاں تک کہ زنجبار سے آئے ہوئے بلوچ۔ اور افریقی نژاد غلام زادے جو قیدی بنا کر یہاں بیچے گئے اور نام نہاد دری زادے بھی۔
لیاری کے ایک بلوچ صحافی اور میرے دوست کو آج بھی یاد ہے کہ جونا مسجد کے ساتھ اپنے کھانوں اور ان کے ذائقوں کے حوالے سے دور دراز تک مشہور ملباری ہوٹل کے پاس بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ( بی ایس او) کے کم از کم دو معرکتہ آلارا قسم کے صدور اور قوم پرست نوجوان رازق بگٹی اور کہور بلوچ اسی علاقے میں قائم حیدری فٹبال کلب کے قریب اسٹڈی سرکلز میں لیکچر دیتے اور کچھیوں کے کچھ نوجوان معمر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے نظریہٴ آزادی سندھ کا پرچار کیا کرتے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان علاقوں میں ضیاء مخالف جمہوری تحریک کی جڑیں بہت مضبوط تھیں۔ اسی کا توڑ کرنے کے لئے کراچی میں لیاری سمیت تمام سندھ میں لسانی سیاست اور برادریوں کی بنیاد پر تقسیم، فتنوں اور فسادات کو ایک بہت ہی بڑے منصوبہ بندی کے ساتھ فروغ دیا گیا۔
یہ جو اندرون سندھ ڈاکوؤں اور سندھ کے بڑے شہروں میں لسانی دہشت گردی نے آج بھی سندھ کی اصل شکل بگاڑ رکھی ہے اس کے پیچھے ضیاء جیسے فوجی آمر کے علاوہ جس مرکزی کردار کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے اسے اکثر فراموش کردیا جاتا ہے وہ ہیں سندھ میں ضیاء کے دنوں کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ۔ ان کے ہی دور حکومت میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران دیہی سندھ پر بدترین فوجی آپریشن ہوئے، سکھر جیل ٹوٹی جس سے پروچانڈیو سمیت کئی انتہائی خطرناک ڈاکو، رہزن اور قاتل فرار ہوگئے بعد میں شہری اور دیہی سندھ میں ایک منصوبے کے تحت ڈاکوؤں ، رہزنوں اور دہشت گردوں کو ہیرو بنایا گیا۔ ”ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم ڈاکوؤں کو انقلابی بنا رہے تھے لیکن یہاں تو ڈاکوؤں نے انقلابیوں کو ڈاکو بنا دیا“۔ کئی سال بعد مجھے طلبہ سیاست میں ایک سرگرم قوم پرست کارکن نے بتایا تھا۔اسی طرح کراچی میں بھی لسانی بنیاد پر سیاست کو فروغ دینے سے لیاری جیسا جمہوری تحریکوں کا گڑھ علاقہ بھی مبریٰ نہیں رہنے دیا گیا۔ یہاں بھی انور بھائی جان جیسے کیریکٹر کی قیادت میں بلوچ اتحاد تحریک نامی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی۔
میرے ایک بلوچ صحافی دوست کو اب بھی یاد ہے کہ کس طرح شاہ عبداللطیف روڈ کو دیکھتے دیکھتے بلوچ اتحاد تحریک والوں نے جنگ کا میدان بنا دیا۔ دوسری طرف کچھی برادری سے تعلق رکھنے والے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کے نوجوان بھی علی محمد ہنگورو (جن کا تعلق کہتے ہیں مرتضیٰ بھٹو کی الذوالفقار سے تھا جو ایم پی اے منتخب ہوئے لیکن یہ الگ داستان ہے کہ کس طرح علی ہنگورو کو پارٹی سے غیر وفاداری پر انہیں پچھلے بے نظیر دور حکومت میں کینسر کا مرض لاحق ہونے کے باوجود بھی زندگی کے آخری سانسوں تک جیل میں رکھ کر سزا دی گئی) کی قیادت میں مورچہ بند ہوکر مقابلے پر آگئے۔ علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ کچھی نوجوانوں کے گھروں کی چھتوں پر مورچہ بند ہونے کی وجہ سے بلوچ اتحاد تحریک والے مسلح لڑاکا کاروں کا بھاری جانی نقصان ہوا تھا اور کئی راہ جاتے عام لوگ بھی اس لڑائی کا شکار ہوئے تھے۔
انہی دنوں میں ضیاء حمایت کے نتیجے میں ایک غیرمعروف شخص ایس کے مجاہد بلوچ بھی نمودار ہوئے تھے۔ جوضیاءء اور غوث علی شاہ حکومتوں میں وزیر بھی بنائے گئے تھے۔
کس نے جانا تھا یہ آمریت ختم ہوگی لیکن ضیاء کا بھوت ملک اور لیاری پر منڈلاتا رہے گا۔ کس نے جانا تھا کہ جس سینما مالک کو لیاری کی سینما ورکرز یونین کے عہدیدار نے تھپڑ مار دیا تھا اس کی اولاد ملک پر راج کرے گی۔ ایس کے مجاہد بلوچ تو شاید کسے یاد بھی نہ ہو کہ کہاں سے آیا کدھر گیا وہ۔
لیکن اب ان کا ظہور، بقول میرے بلوچ صحافی دوست کے ، ان کے بیٹے سلمان مجاہد بلوچ کی شکل میں ہوا ہے جو اب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے دو سو ترانوے سے پی پی پی کے قادر پٹیل کو شکست دیکر ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے ہیں۔ اصل میں یہ جنگ اس حلقے میں واقع ہاکس بے کی ان زمینوں پر ہے جن پر حصہ داری کے دعویدار کچھیوں کے کھڑپینچوں کو، اس سے قبل گزشتہ پی پی پی حکومت میں قادر پٹیل نے کھڈے لائن لگا دیا تھا۔ اب کچھیوں کے کل کے کھڈے لائن کھڑپینچ ایم کیو ایم کے ساتھ ہو لئے ہیں۔ اسی حلقے میں ہاکس بے کی زمینوں پر لینڈ مافیا کی آنکھ اور قبضے ہیں۔ بقول میرے بلوچ صحافی دوست لیاری میں جنگ دو برادریوں کے درمیان نہیں بلکہ ہاکس بے کی زمینوں پر قبضوں سمیت علاقے پر کنٹرول کی ہے۔
کنٹرول کی یہ لڑائی سمٹ کر ایک بار پھر شاہ عبداللطیف روڈ پر آگئی ہے جہاں کچھیوں کے مسلح گروپ اور غفاری ذکری گینگ جو اس سے قبل علاقہ بدر کردیئے گئے تھے و دیگر گروہ بھی اس لڑائی میں شامل ہوگئے ہیں تو دوسری طرف بلوچ گینگ اور پنجابی گینگ ہیں یہی لڑائی ملکی سطح پر ایم کیو ایم، پی پی پی لڑائی بنتی ہے۔ نواز شریف کا ایم کیو ایم کے ساتھ پیکٹ بھی اس لڑائی کو مزید ایندھن فراہم کرے گا۔ ہاکس بے کی زمینوں پر حصے داری کی اس گینگ وار میں اب تک ہزاروں خاندان دربدر ہوچکے ہیں۔
رہی سندھ اور لیاری میں امن و امان کی بات تو قائم علی شاہ ہوں کہ غوث علی شاہ جو اپنے آبائی شہر خیرپور میرس میں برسوں سے بند دو ٹیکسٹائل ملوں کو نہیں کھلوا سکے وہ سندھ کو کونسی فیاضی دے سکتے ہیں؟جبکہ لیاری کو اس کی اندرونی کہانیوں سے کور کرنے والے صحافی جانتے ہوں گے کہ لیاری کی امن دشمن مافیا یا نام نہاد لیاری امن کمیٹی پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے پولیس والوں کو صدر آصف زرداری کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
تازہ ترین