• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات میری طرح آپ کی سمجھ میں بھی نہیں آئی ہو گی کہ آخر عورت کو ہم نے صنف نازک کیوں قرار دے رکھا ہے؟ میں اپنے اردگرد کارفرما بہت سے الفاظ اور اداروں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب صیغہ تانیث کے ساتھ پکارے جاتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجئے۔ سلطنت، ریاست، حکومت، خلافت، بادشاہت، آمریت، جمہوریت، فوج، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، عدالت عظمیٰ، عدالت عالیہ، دولت، حکمرانی، اسمبلی، پارلیمنٹ، کتاب، تعلیم، عزت، شہرت، دستار، زندگی، موت، بیماری، صحت، روشنی، کائنات، ہوا، مٹی، قبر، آندھی، طغیانی،قیامت، جنت، دوزخ، صحافت، لیاقت، دیانت، شرافت، صداقت، بدمعاشی، غنڈہ گردی، بے ایمانی، رشوت، سفارش، سڑک، منزل، کہکشاں، جوانی، ضعیفی، اولاد، بہت سے الفاظ کے ساتھ تذکیہ و تانیث کی غلطیاں وابستہ ہیں لیکن ان الفاظ کو کبھی کوئی ماں کا لعل مذکر بولنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ پٹھان بہن بھائیوں کو اس ضمن میں چھوٹ دی جا سکتی ہے۔

علامہ اقبال جیسے شاعر نے یونہی تو نہیں کہا تھا؎

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

برصغیر میں ایک مدت تک مدرسری خاندانی نظام رہا ہے۔ خاندانوں کی پہچان مائوں سے ہوا کرتی تھی۔ گھر کی چار دیواری میں تو عورت کا عمل دخل تھا ہی، باہر کی دنیا میں چلتے پھرتے مرد بھی عورتوں ہی کے اشاروں پر ناچتے پھرتے تھے۔ آج مدرسری نظام نہیں رہا لیکن ذرا غور کیجئے۔ سڑکوں، بازاروں، مارکیٹوں، پلازوں، منڈیوں اور دیگر تجارتی اور کاروباری اداروں میں جو قیامت کا سماں ہے، اس کا سبب کون ہے؟ کس کی دلداری کیلئے مرد ادھر سے ادھر بھاگے پھرتے ہیں؟ ہندی کی ایک بہت مشہور کہاوت ہے راج ہٹ، تریاہٹ، بالک ہٹ، راج ہٹ کا مطلب ہے، بادشاہ کی ضد، تریا ہٹ کا مطلب ہے، عورت کی ضد اور بالک ہٹ کا مطلب ہے، بچے کی ضد، مجھے تو ہر انسانی معاشرے میں دکھائی دینے والی چہل پہل، تریاہٹ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے سامنے گاڑی کی فرمائش رکھ دی تو پھر مرد فیض صاحب کے اس مصرعے کی تصویر بن جاتا ہے، مت پوچھ ولولے، دل ناکردہ کار کے ہمارے کتنے ہی بھائی صرف اس لئے خودکشی پر مجبور ہو گئے کہ وہ اپنی تریائوں کی جائز خواہشیں بھی پوری نہ کر سکتے تھے۔

سلطنت، ریاست، حکومت، خلافت اور بادشاہت اگرچہ خالص مردانہ کام ہیں لیکن انہیں ہمیشہ مونث بولا اور لکھا گیا۔ فوج میں ہمیشہ سے مرد پیش پیش رہے ہیں لیکن اسے بھی صیغہ تانیث کے ساتھ جانا اور پہچانا گیا۔ آج کے نئے دور میں، البتہ عورتیں بھی مردوں کے شانہ بشانہ جنگی محاذوں پر جاتی ہیں اور مردانہ وار لڑتی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عورتوں کی شمولیت سے فوجیں مضبوط ہوئی ہیں تو شاید غلط نہ ہو گا۔ عدلیہ کا تو عجیب معاملہ ہے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو جب ہم نے اردو نام دیا تو آخر میں عالیہ اور عظمیٰ جیسے زنانہ نام نتھی کر دیے۔ شاید اسی لئے جب عدالتیں کوئی فیصلہ سناتی ہیں تو انہیں پتھر پر لکیر خیال کیا جاتا ہے۔ ان فیصلوں کو ہمیشہ کے لئے ایک نظیر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ عالیہ اور عظمیٰ کی بات کون ٹال سکتا ہے،ان سے سرمو انحراف کرنے کے عمل کو توہین قرار دیا جاتا ہے۔ معافی بہرحال مانگنا ہی پڑتی ہے۔ جب تک عدلیہ میں خواتین داخل نہیں ہوئی تھیں تب کہیں کہیں ناانصافی کا شائبہ گزرتا تھا لیکن اب انصاف کا بول بالا ہے۔ مساوات ہے، برابری ہے۔ اب خواتین ججوں کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ عدلیہ کو عدلیہ ٹھیک ہی کہا جاتا ہے۔ آپ جمہوریت ہی کو دیکھ لیجئے۔ نام زنانہ اور کام مردانہ، جمہوریت، آمریت سے مردانہ وار لڑتی ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ رانجھا رانجھا کرتے ہوئے یہ آپ ہی رانجھا ہو جاتی ہے۔ یعنی آمریت کا روپ دھار لیتی ہے۔ دور نہ جایئے، آپ ہمارے ہاں سے مثال لے لیجئے، یہاں جمہوری حکومتیں، آمریت کے راستے پر چل نکلتی ہیں اور آمرانہ حکومتیں جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی ہیں۔ جمہوریت، عوام کے ذریعے منتخب کی گئی حکومت ہوتی ہے لیکن ہماری جمہوریتوں نے عوام پر وہ ظلم کئے ہیں کہ اچھے بھلے مذکر عوام، اب مونث سے ہو گئے ہیں۔ حکومتی ترجمان بار بار یہی کہتے پائے جاتے ہیں۔ عوام کہتی ہے، عوام چاہتی ہے۔ مقننہ اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مقننہ ویسے تو غریب عوام کے مسائل پر بحث مباحثے کیلئے بنائی جاتی ہے لیکن عوام ہی کے منتخب کئے ہوئے لوگ اس کے اندر محلے کی ان پڑھ عورتوں کی طرح لڑتے ہیں۔ مقننہ میں بیٹھی ہوئی خواتین انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکراتی ہیں۔ مقننہ بھی عورتوں کی طرح بہت طاقت ور ہوتی ہے۔ عورت گھر چلاتی ہے، مقننہ ملک۔

ملک کو چلانے کیلئے ایک انتظامیہ بھی درکار ہوتی ہے۔ انتظامیہ، جمہوریت میں بھی ہوتی ہے اور آمریت میں بھی۔ جمہوریت میں یہ عوامی نمائندوں کے مفادات کا خیال رکھتی ہے۔ انہیں ٹھیکے لے کر دیتی ہے۔ کرپشن کے طریقے بتاتی ہے۔ احتساب سے بچنے کے راستے دکھاتی ہے۔ آمریت میں انتظامیہ جمہوریت کے نعرے لگانے والوں پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ انہیں گرفتار کرتی ہے۔ سزائیں دلواتی ہے۔ جس طرح عورت کے بغیر گھر نہیں چلتا، اسی طرح انتظامیہ کے بغیر جمہوریت چلتی ہے نہ آمریت۔

ان چند مثالوں سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ عورت کتنی مضبوط ہے جو لوگ آج بھی عورت کو صنف نازک کہتے ہیں، غلط ہیں۔ آج ہی پر کیا موقوف، ہماری تاریخ بھی بہادر خواتین کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے، زندگی کا سوزِ دَ روں

تازہ ترین