• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8مارچ ہو کہ 12فروری کہ عورتوں کا کوئی جلسہ، ہندوستان اور پاکستان میں نوجوان سے بوڑھی عورتوںتک 20برس ایک نغمے سے شروع جلسہ ہوتا’’دور دور سے دیکھو بہنیں آتی ہیں‘‘۔ یہ ایک انڈین ایکٹیوسٹ خاتون پاکستان کے ضیا دور میں اپنی طرف سے تک بندی کررہی تھی، مگر یہ تک بندی ہر چھوٹے بڑے کو ازبر تھی۔ تالیاں بجاتی عورتوں نے اس گانے کو اپنا قومی ترانہ بنایا ہوا تھا۔ وہ خاتون جس نے یہ ترانہ بنایا ہمارے قبیلے میں، دلی میں اور سارے ملکوں میںکملا بھسین کے نام سے پہچانی جانے لگی۔ تمنا یہ تھی کہ یہ دونوں لڑاکو ملک، انسانیت سیکھیں، دونوں قوموں میں یگانگت اور محبتوں کے ساتھ تجارتی، ثقافتی اور علمی رشتے وسیع ہوں کہ داتا صاحب ہوں کہ نظام الدین، خسرو کہ میرا بائی کتھک ہو کہ اوڈیس اور میوزک میں بڑے غلام علی خاں سے لیکر سہگل تک مشترک ورثہ ہونے کے باوجود مذہب کے نام پر ہماری تین نسلوں میں وہ زہر گھولا گیا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے امن کے پرچارک،لوٹا لائیں وہ ماحول جس میں رام لیلیٰ اور جلوسِ عزا، عقیدت سے منائے جاتے۔ امرتا پریتم، احمد راہی کو یاد کرتیں اور ڈاکٹر نارنگ غالب کے اشعار کی تشریح کرکے، ہزاروں کا مجمع شوق و ذوق سے سنتا اور مہدی حسن ہو کہ کشور مشریا سب سے غزلیں سننے کی فرمائش کرتے۔ یہ بھی شور ہوتا اگر عابدہ پروین ہوتیں کہ کمار سانو سے ’’آج جانے کی ضد نہ کرو‘‘۔

برا ہوا یٹمی دھماکوں کا کہ زور اسلحہ پر ہوگیا۔ امن آشتی بھول گئی۔ اس کا ذائقہ تین جنگیں لڑ کربھی کوئی سبق نہ لایا ہمیں کتابوں سے زیادہ ڈالر سے محبت ہوگئی۔ دونوں ملکوں میں سیاست کم اور مذہبیت، ایسی تبدیلی لائی کہ ایک دوسرے کو قتل کر دینا، محمود غزنوی کا دور یادکراتا رہا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدالسلام پہ افتخار کرنا بھول کر ادھرماتھے پر تلک اور اُدھر ٹوپی، داڑھی کی سرکار کا سکہ خوب چلا۔ ایسا چلا کہ نصاب، سڑکوں کے نام اور تاریخی نوادرات کو نابود کرنے اور نیا شوالہ بنانے کا کام شروع ہوگیا۔ کملا بھسین کی دو اولادیں تھیں،ان کے دکھ کا مداوا۔ کملا نے ساری دنیا میں عورتوں کے حقوق کے لئے کام کیا، نظمیں لکھیں، وہ گائوں گائوں عورتوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر ان کے بڑے چھوٹے مسائل حل کرتی، ہر گروپ میں شعور کی لو ایسی بھڑکاتی کہ دلت عورتیں ہوں کہ مسلمان، انڈیا میں مذہبی رعونت ختم کرنے کے لئے سعیدہ سیدین کے ساتھ، ہر فورم پہ سوال اُٹھاتی کہ کیا نظریہ، انسانیت کا قاتل ہے کہ آج کل ہندو تو اپنے ملک کے دانشوروں جن میں جاوید اختر اور گلزار بھی شامل ہیں، ان کو بھی دشمن گردان رہے ہیں۔حنا جیلانی، عاصمہ اور رحمٰن صاحب نے تجویز پیش کی کہ جیسے یورپین یونین، مغربی ممالک نے بنائی ہوئی ہے۔ ویسے جنوبی ایشیائی ممالک کو بھی یونین کی طرح ایک ہو کر غربت، جہالت اور مذہبی جنونیت کو ختم کرنا چاہئے۔ یہاں بھی انڈیا نے، سارک ممالک کی انجمن کی طرح، اس پر بھی، اپنی الگ جھنڈی کھڑی کر دی۔ خیر سے مودی صاحب کسی اجتماعیت میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ تو افغانستان میں کروڑوں، اربوں روپے، پاکستان دشمنی کی آڑ میں لگا رہے تھے کہ وسطی ایشیائی ملکوں تک، صاحب رستہ مل جائے گا۔

کملا بھسین بات کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، اس کی ہلکے پھلکے انداز میں ، کبھی لطیفہ بناکر ، کبھی گا کر اور کبھی نعرہ لگا کر موجود لوگوں کوا یسےگرماتی کہ ہنستے ہنستے، آنسو نکل آتے۔ وہ ان آنسوئوں کو دھمال میں بدل دیتی۔ جب جانے والی دوستوں کا سوچتی ہوں تو شہلا، نظر آتی ہے، ہر وقت خواتین کے حقوق کے لئے، چشمہ لگائے بیٹھی کام کرتی نظر آتی۔ یہی حال روبینہ سہگل، عاصمہ جہانگیر کا تھا۔ کام کرتے کرتے دنیا سے چلی گئیں۔ جیسے کملا چلی گئی مگر دونوں ملکوں میں نفرتوں کی خلیج چوڑی ہوتی چلی گئی۔کملا کے بعد، انسان دوستی کا درس دینے والے،پڑھے لکھے خاندان کے سپوت واجد شمس الحسن، چپ چاپ چلے گئے۔ اِدھر زیتون بانو گئیں۔

مجھے یاد ہے روزن کی کانفرنس تھی۔ یہ کوئی دو سال پہلے کا قصہ ہے ایک دروازے سے میں اور آخری دروازے سے کملا گاتی بڑھ رہی تھیں۔ ملن رت آئی۔ آئی رے ملن رت آئی‘‘۔ ہم لوگوں کی جپھیاں بھی ہندوستان، پاکستان، دونوں میں مشہور تھیں۔ کملا کو انڈیا پاکستان میں یاد کرنے والوں میں تین بوس، ریٹا اور سیدہ سیدین کے علاوہ جاوید نقوی بھی ہوتے، وہ تو گھڑی میں خاموش ہوگئے۔ اب تو کامنا پرشاد رہ گئی ہے۔ کبھی فراز کو یاد کرتی تو کبھی جوش صاحب اور فیض صاحب کو یاد کرتی۔ مشاعرے اس کی جان تھے۔ وہ بھی لٹ پٹ گئے۔ زوم کی ایک لہر ہے جو ہم سب کو آواز کے سہارے ملا دیتا ہے۔ کیا زمانہ آگیا ہے۔ سائنس کی ترقی نے شکلیں بھلا دی ہیں۔ جذبے مفقود، وہ بھجن جو میں ٹنڈو الہ یار میں سنتی ہوں۔ وہ انڈیا میں نہیں سن سکتی۔ وہ نعتیں جو پاکستان میں سنتی ہوں۔ وہ سعودی عرب میں بدعت کہہ کر بند کروا دی جاتی ہیں۔کہیں انگلینڈ میں، کہیں آسٹریلیا میں تو کہیں پیرس میں انسان بلا سبب مار دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں روز بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے۔ پورا خاندان، جائیداد کے لئے بھون دیا جاتا ہے۔

کملا بتائو دونوں ملکوں کے لیڈر تو افغانستان کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ باقی دنیا، خود تماشہ بنی ہوئی ہے۔ اب میں انڈیا میں رنجیت کے علاوہ کسے کہوں، امن کی فاختہ ڈھونڈ کے لائو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین