انسان کی عادت ہے کہ وہ ہر شے کو محض فوری فائدے اور نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دور تک نہیں دیکھ سکتا۔ زبیر عمر وڈیو اسکینڈل کا جو سب سے اہم پہلو تھا، وہ یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ ہر آدمی دوسرے کا تماشہ دیکھتے ہوئے خوش ہور ہا ہے ؛حالانکہ اس سے زیاد ہ کھل کر انسان کو اور کیسے بتایا جا سکتا تھا، آدمی کے اعمال کس طرح ریکارڈاور نشر کیے جائیں گے۔
چند صدیاں پہلے یہ تصور کرنا ہی ناممکن تھا کہ ایک واقعہ ریکارڈ کر کے ان لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے، جو وہاں موجود نہیں تھے۔ پہلے ٹیلی فون کی شکل میں آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل اور ریکارڈ ہونا شروع ہوئی۔ خط کئی ہفتوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتا۔ پھر فیکس اور ای میل آگئی۔ اس کے ساتھ ہی تصاویر بنانے والے بلیک اینڈ وائٹ کیمرے وجود میں آئے۔ پھر ڈیجیٹل اور رنگین۔ بات تصویر سے آگے نکل کر وڈیو تک چلی گئی۔ وڈیو کا معیار بہتر ہوتا چلا گیا۔ آج ڈرون کیمرے بلندی سے سب کچھ دکھا رہےہیں۔ پورے کرۂ ارض میں انٹرنیٹ کی کیبل بچھا دی گئی۔ پوری دنیا میں ڈیٹا منتقل ہونا شروع ہوا۔ یہ دراصل اعمال نشر کیے جانے کا ٹریلر تھا ۔ سیٹلائٹ خلا میں بھجوائے گئے جو زمین پہ رینگتی ہوئی چیونٹی دکھانے تک کی قدرت رکھتے تھے۔ اس اثنا میں کیمروں اور انٹر نیٹ کی وجہ سے بے شمار لوگوں کے اسکینڈل سامنے آئے، خاص طور پر مشہور لوگوں کے۔ چیئرمین نیب کی وڈیوسامنے آئی۔ آج ہر موبائل فون میں کیمرہ نصب ہے اور ہر انسان رپورٹر بنا ہوا ہے۔
انسان کے دماغ میں نرو فائبر کی لمبائی پانچ لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ زمین سے چاند کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔ اس نرو فائبر میں سگنلز بجلی کی شکل میں حرکت کرتے ہیں۔ آپ کے پورے جسم میں تاریں بچھائی گئی ہیں، جنہیں نروز کہتے ہیں۔ دماغ سے احکامات بجلی کی صورت میں انہی تاروں سے اعضا تک پہنچتے ہیں۔ اس دوران جو بجلی استعمال ہوتی ہے، وہ انتہائی کم یعنی ملی وولٹس میں ہوتی ہے۔ بات کیمروں کی ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انسان نے ایسے کیمرے اور دوربینیں بنانا شروع کیں، جو بہت دور تک دیکھ سکتے تھے اور ریکارڈ کر سکتے تھے۔ کیپلر جیسی دوربینیں خلا میں بھیجی گئیں۔ جس خدا نے انسان کے جسم میں نروز بچھا کر ان میں بجلی دوڑائی، کیا اس کے پاس کیمرے اور دوربین کی ٹیکنالوجی نہیں ہو سکتی ؟دراصل ہمارے ذہنوں میں خدا کا جوتصور ہے، وہ یہ ہے کہ خدا ترقی یافتہ اور ماڈرن نہیں ہو سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ جو مذہبی طبقہ ہمیشہ خدا کی نمائندگی کرتا رہا، وہ زیادہ تر ان پڑھ تھا۔ چرچ نے مشہور سائنسدان گیلیلیو کو نظر بندی کی موت مار دیا تھا۔ لوگوں کے وڈیوا سکینڈلز دیکھتے ہوئے آج انسان کو شک ہونے لگتاہے کہ کہیں واقعی ہر انسان کی نگرانی تو نہیں ہو رہی ؟
فنگر پرنٹس کا معاملہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ اللہ کہتاہے کہ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکھٹی نہیں کر سکیں گے ؟ بلکہ ہم تو اس کے فنگر پرنٹس بھی دوبارہ ٹھیک کر دیں گے۔ 1788ء میں پہلی بار ایک جرمن اناٹومسٹ جو ہان کرسٹوف نے یہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے ہر انسان کے فنگر پرنٹس دوسروں سے جدا ہیں۔ خدا جس نے 7.8ارب انسانوں میں سے ہر ایک میں منفرد فنگر پرنٹ پیدا کئے، وہ ٹیکنالوجی میں کس مقام پر ہوگا۔ کیا یہ منفرد فنگر پرنٹ صرف ووٹوں کی تصدیق کے لئے تخلیق کیے گئے تھے ؟
کوئی شک نہیں کہ ایک دن آپ کے اعضا خود آپ کے خلاف گواہی دیں گے۔ سائنس اب اس طرف جا رہی ہے کہ انسان اپنے ڈی این اے میں ڈیٹا ریکارڈ کر سکے۔ انسان کی آنکھ کیمرے کی طرح کام کرتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک دن آپ پر یہ انکشاف ہو کہ زندگی بھر جو مناظر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، وہ صرف ایک دفعہ نہیں دیکھے گئے بلکہ کہیں اسٹور بھی ہو رہے ہیں۔ آپ کو اپنی آنکھوں کے اس فیچر کا علم ہی نہیں۔ پھر کون سی چیز ریکارڈ ہونے سے بچی ہوگی۔
انٹرنیٹ پر جو جو ویب سائٹس ایک آدمی کھولتا ہے، و ہ سب ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ اگر ہمارا انٹرنیٹ کا استعمال ہی کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا جائے تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ آپ کی ٹائم لائن آپ کا نامہ ٔ اعمال ہے۔ اس کے باوجود ہمیں خدا سے ڈر نہیں لگتا ؛ حالانکہ جہاں آپ کو یقین ہو کہ کیمرے لگے ہوئے ہیں، وہاں آپ ایسی ویسی حرکت ہرگز نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے بارے میں ہمارا علم بہت کم ہے ورنہ ہم اس دنیا میں بہت محتاط رہتے۔ ایک سیاستدان کا وڈیو اسکینڈل دیکھ کر خوش ہونے والوں کی مثا ل ایسی ہے کہ جیسے پنجرے میں بند مرغی ذبح ہوتی مرغی کو دیکھ کر خوش ہو رہی ہو۔ ریکارڈنگ تو سب کی پیش کی جائے گی لیکن زبیر عمر اسکینڈل نے ہمیں اس کی ایک جھلک اسی دنیا میں دکھا دی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ انسان توزمین کے نیچے خدا کی طرف سے رکھے گئے عناصر نکال کر دوربین بنا سکتاہے لیکن خدا کے پاس ایسا کوئی کیمرہ اور دوربین موجود نہیں، جس سے انسان کی ریکارڈنگ کی جا سکے۔ کتنی عجیب بات ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)