• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ دسمبر2001ء کو ختم ہونیوالے سال میں پاکستان میں کام کرنیوالے بینکوں نے صرف 1100ملین روپے کا قبل از ٹیکس منافع کمایا تھا لیکن جنوری سے دسمبر 2012ء کے 12ماہ میں ان بینکوں کا یہ منافع بڑھ کر 187000ملین روپے (1877)ارب روپے ہو گیا۔ پاکستان تو کیا دنیا بھر کی حالیہ تاریخ میں منافع میں اس زبردست اضافے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ منافع میں یہ ناقابل یقین اضافہ بینکوں کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اہم ترین وجوہات میں اول ،بینکوں کا نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر لئے گئے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک نہ کرنا اور دوم ،بینکوں کا صنعت ،تجارت و زراعت کی ترقی کے لئے نجی شعبے کوقرضے فراہم کرنے کا اپنا اصل کام چھوڑ کر بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے بظاہر کسی قسم کا خطرہ مول لئے بغیر حکومت کو قرضے فراہم کرتے چلے جانا شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک بھی اس بات کا ادراک نہیں کر رہا کہ بازار پر مبنی مانیٹری پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کو مختلف شعبوں کو قرضے فراہم کرنے کیلئے قرضوں کے اہداف دینا ہونگے۔ بینکاری کے ضمن میں چند حقائق اور اعدادوشمار نذر قارئین ہیں جو کہ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک بینکوں کے ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا۔ (1)دسمبر2001ء سے دسمبر2012ء کے درمیان کچھ شعبوں میں بینکاری کی کارکردگی یہ رہی :۔
(الف)بینکوں کے مجموعی قرضوں میں 395فیصد اضافہ ہوا۔(ب) بینکوں کے مجموعی قرضوں میں 313فیصد اضافہ ہوا(ج)بنکوں کے مجموعی اثاثوں میں403فیصد اضافہ ہوا۔(د) بینکوں کے قبل از ٹیکس منافع میں 16900فیصد اضافہ ہوا۔(2)ببنک اپنے کھاتے داروں کو نہ صرف اپنے منافع میں شریک نہیں کر رہے بلکہ اپنے بچت کھاتے داروں کو حقیقی منفی شرح سے منافع دے رہے ہیں۔ 2012ء میں بینکوں نے ان کھاتوں پر اوسطاً 6فیصد سالانہ کی منفی شرح سے منافع دیا کیونکہ بچت کھاتوں پر شرح منافع6 فیصد جبکہ افراط زر کی شرح اوسطاً12فیصد تھی۔ منفی شرح منافع دینا خود اسٹیٹ بینک کی سابقہ رپورٹوں کے مطابق استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ آئین پاکستان کی شق3کے بھی منافی ہے۔(3)نفع و نقصان کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر جنوری2001ء سے دسمبر 2012ء تک اپنے منافع میں کھاتے داروں کو شریک نہ کر کے بینکوں نے ان کو تقریباً 1200/ارب روپے اس رقم سے کم دیئے جو 2000ء میں دی گئی شرح منافع کے مطابق ان کا حق تھا۔(4)۔31دسمبر 2001ء کو ختم ہونیوالے سال میں بینکوں کے غیر فعال قرضوں کا حجم 134/ارب روپے تھا۔ گزشتہ برسوں میں بھی بینکوں نے بشمول پیشہ ورانہ اصولوں سے انحراف اور اخلاق و قانون کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کر کے از خود یا اسٹیٹ بینک کی غیر قانونی ہدایات کے تحت تقریباً200/ارب روپے کے قرضے معاف کئے ہیں لیکن اس کے باوجود31دسمبر2012ء کو بینکوں کے غیر فعال قرضوں کا حجم607/ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔(5)،31دسمبر2012ء کو نقصان کی فہرست میں شامل قرضوں کا حجم 496/ارب تک پہنچ گیا تھا جو کہ غیر فعال قرضوں کا82فیصد ہے۔خدشہ ہے ان قرضوں کا بڑا حصہ معاف کر دیا جائیگا۔ واضح رہے کہ لمبے عرصے سے معاف کئے گئے قرضوں کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔(6)بینکوں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ قرضوں کی وصولی کے بجائے منافع کا ایک حصہ کھاتے داروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بڑے پیمانے پر رقوم اپنے ”محفوظ اکاؤنٹ“ میں منتقل کر رہے ہیں تاکہ نادہندگان کے قرضے معاف کئے جاسکیں۔ 31دسمبر 2001ء کو اس محفوظ اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقوم کا حجم 134/ارب روپے تھا جو دسمبر2012ء میں بڑھ کر 419/ارب روپے ہو گیا حالانکہ اس مدت میں بڑے پیمانے پر قرضے معاف کئے گئے ہیں۔7۔ 31دسمبر 2008ء کو بینکوں کے قرضوں اور ڈپازٹس کا تناسب 75.2فیصد تھا جو دسمبر2012ء کو کم ہو کر51.5فیصد رہ گیا۔ یہ حالیہ دہائیوں میں قرضوں اور ڈپازٹس کا کم ترین تناسب ہے۔ 31دسمبر2007ء اور 31دسمبر2012ء کے درمیان بینکوں کے مجموعی قرضوں میں صرف 587/ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ اسی مدت میں بینکوں کی مجموعی سرمایہ کاری کے حجم میں2922/ارب روپے کا زبردست اضافہ ہوا۔یہ سرمایہ کاری اسٹیٹ بینک کی معاونت سے حکومتی تمسکات میں کی جا رہی ہے تاکہ ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن وغیرہ سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کیا جا سکے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملکی معیشت بلکہ شعبہ بینکاری کی صحت کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ حکومت نے بینکوں اور قومی بچت اسکیموں کے ذریعے جو زبردست قرضے حاصل کئے ہیں ان کو واپس کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے لئے جانے والے ان زبردست قرضوں کو غیر سودی بنیاد پر منتقل کرنا روز بروز مشکل ہوتا چلا جائے گا اور حکومت و اسٹیٹ بینک کے لئے اعلانیہ یہ کہنے کا جواز پیدا ہو جائے گا کہ پاکستان سے سودی معیشت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک پہلے ہی ایک حلف نامے میں ملک میں اسلامی بینکاری کے مکمل نفاذ کو پاکستان کی سلامتی اور معیشت کے لئے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ دریں اثناء وطن عزیز میں سودی نظام بینکاری پوری آب و تاب سے جاری ہے جبکہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک سودی بینکاری کے نقش پا پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ”اسلامی بینک“ نہ صرف سودی نظام کے ظلم کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ سماجی انصاف فراہم کرنے میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔ اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان بینکوں کو ”اسلامی بینک“ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت سودی بینک اور اسلامی بینک ملک میں ساتھ ساتھ کام کرتے رہیں گے۔ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے اور سودی نظام کو دوام بخشنے کے مترادف ہے۔ ہم گزشتہ کئی برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے لیکن علماء و مفتیان کرام، اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ، اسلامی نظریاتی کونسل، بینکوں کے شریعہ ایڈوائزرز اس متوازی بینکاری کے نظام اور اسلامی بینکاری نہ کرنے کے باوجود اسلامی بینک کہتے چلے جانے کے معاملات میں دانستہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین