• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں فتنہ فساد کی جڑ عورت ہے اگر عورت نہ ہوتی تو کرہٴ ارض پر کوئی گناہ گار نہ ہوتا۔ اس ناقص العقل کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ مومنین کو آزمایا جا سکے۔ دنیا کے تمام جھگڑے عورت ذات کی وجہ سے ہوتے ہیں سب زر‘ زن اور زمین کا چکر ہے دولت اور جائیداد بھی انسان عورت کی خواہشات پوری کرنے کے لئے حاصل کرتا ہے اس لئے ان تینوں شرپسند عناصر میں زن ہی سب سے مہلک اور خطرناک ہے۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل ہابیل نے قابیل کا کیا اور اس کی وجہ عورت تھی اور تو اور جنت میں حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے گندم کا جو بیج کھایا‘ اس پر بھی اماں حوّا نے اُکسایا۔ اس سے بڑھ کر عورت کے فتنہ ہونے کا ثبوت کیا ہوگا…اس سے ملتے جلتے جملے آپ اٹھتے بیٹھتے سنتے ہوں گے عورت گھر سے نکلے تو بے حیائی کی دُہائی دینے والے بلا توقف اسے گناہ گار قرار دے ڈالتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں تو نسوانیت سے یوں بدکتی ہیں جیسے نسوانیت نہ ہو شیطانیت ہو۔ اگر کوئی دینی جماعت کسی مخلوط جلسے کا انعقاد کر بھی لے تو مرد و زن کے مابین یوں حصار کھینچ دیا جاتا ہے جیسے خدانخواستہ منہ زور گھوڑوں کی طنابیں ڈھیلی کر دی گئیں تو آناً فاناً آ ملیں گے۔ خطیب اور خواتین سامعین کے درمیان پردہ حائل ہونا تو معمول کی بات ہے۔ میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ شرعاً پردے کی حدود و قیود کیا ہیں چہرے کا پردہ لازم ہے یا نہیں اس پر علمائے کرام میں اختلاف رائے موجود ہے اور میں اپنے محدود علم کی بنیاد پر کوئی فتویٰ صادر کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر کیا کوئی اس بات کی تردید کر سکتا ہے کہ آنحضور کے دور میں اور بعد ازاں خلفائے راشدین کے دور میں بھی خواتین مساجد میں آ کر نماز پڑھتی تھیں‘ عید کے موقع پر ایک ہی جگہ نماز عید ادا کرتیں اور ان کے درمیان کوئی دیوار‘ کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا تھا محض اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ مرد اگلی صفوں میں کھڑے ہوتے اور خواتین پچھلی صفوں میں۔ نماز ختم ہوتی تو پہلے مستورات کو جانے کا موقع دیا جاتا ۔ سنن ابی داوٴد کی ایک روایت کے مطابق ایک موقع پر خواتین و حضرات مسجد کے باہر سڑک پر خلط ملط ہو گئے جس پر آنحضور نے یہ نصیحت کہ خواتین سڑک کے ایک طرف چلیں۔ بخاری ‘مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا‘ اپنی عورتوں کو مساجد میں آنے سے منع نہ کرو۔ بعد ازاں حضرت عمر نے اس قدر احتیاط کی کہ خواتین کی آمد و رفت کے لئے مسجد نبوی میں الگ دروازہ مخصوص کر دیا۔ جو لوگ اجتماعات کے موقع پر مرد و زن کے اختلاط پر بے حیائی کے فتوے لگاتے ہیں اور خواتین کے مردوں کے ساتھ بیٹھ کر بحث و تمحیص کرنے یا پارلیمینٹ میں جانے پر تنقید کرتے ہیں وہ مجھے کوئی ایک مثال ایسی لادیں کہ میرے آقائے دوجہاںﷺ نے مسلمانوں سے خطاب کیا ہو‘ درس دیا ہو اور شرکاء میں خواتین شامل نہ ہوں یا خواتین و حضرات کے درمیان دیوار کھینچی گئی ہو۔ سورة نور میں مرد و زن کے تنہائی میں ملنے سے متعلق جو ناپسندیدگی نظر آتی ہے یا کسی کے گھر جا کر خاتون خانے سے بات چیت کے لئے پردے کی اوٹ اور درشت لب و لہجے کی جو شرط لگائی گئی ہے وہ قعطاً مختلف معاملہ ہے یقیناً خلوت میں نامحرم مرد اور عورت کی ملاقات کسی طور جائز نہیں مگر اجتماعی معاملات کیلئے جلوت میں مردو زن کی سماجی‘ سیاسی یا دینی موضوعات پر بات چیت کے لئے جمع ہوں تو شرعاً اس کی گنجائش موجود ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سی احادیث صحابیات سے معنون نہ ہوتیں اور جید صحابہ مسائل معلوم کرنے کے لئے امہات المومنین کے پاس نہ جاتے۔ اس ضمن میں بہت سی روایات پیش کی جا سکتی ہیں مگر یہ کالم اس قدر تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
شرم و حیاء کا یہ غیر حقیقی تصور جو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ہاں حلال اور شرعی امور بھی حرام سمجھے جانے لگے مثلاً ہمارے ہاں بیڈ روم کا تصور گزشتہ چند سال سے آیا ہے وگرنہ میاں بیوی کو ایک ساتھ سونے کی اجازت بھی نہ تھی۔ زنان خانہ الگ ہوتا اور مردوں کے لئے چار پائیاں دوسری طرف بچھتیں۔اب بھی بعض علاقوں میں یہ قدامت پسندانہ اور ہندوانہ رواج موجود ہے کہ میاں بیوی رات کو چھپ کر ملتے ہیں جیسے کسی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہوں پنجاب میں تو وہ روایت بہت مشہور ہے کہ کوئی ہمسایہ چارپائی لینے آیا تو اہل خانہ نے کہا‘ ہمارے پاس تو صرف دو چارپائیاں ہیں ایک پر میں اور میرا باپ سوتے ہیں جبکہ دوسری چارپائی پر میری بیوی اور میری ماں سوتی ہیں۔ اُس نے کہا‘ چارپائی بے شک نہ دیں مگر سونے کی ترتیب تو ٹھیک کر لیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قدامت پسندی و تنگ نظری پر مبنی اس فرسودہ روایت کو شرم و حیاء کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے حالانکہ سورة نور میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تین اوقات یعنی صبح‘ دوپہر اور رات میں بالغ بچے بھی اپنے ماں باپ کے کمرے میں داخل نہ ہوں۔
مجھے یاد ہے چند سال قبل ملائیشیا کی اسلامی تحریک کے قائد انور ابراہیم طویل قید کے بعد جیل سے رہا ہوئے تو ان کی اہلیہ جیل کے باہر انہیں گلے ملیں یہ تصویر تمام عالمی اخبارات میں شائع ہوئی مگر ہمارے ہاں کوئی مذہبی رہنما تو درکنار اسی طرح کی روشن خیالی کا مظاہرہ کوئی لبرل سیاستدان بھی نہیں کر سکتا ۔ میں شرم و حیاء اور اس پردے کے اس عجیب و غریب تصور کا مآخذ ڈھونڈنے نکلتا ہوں تو ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے جس طرح ہم باہر موسم کی شدت سے خوف کھا کر کمرے میں اے سی لگا لیتے ہیں ایک حصار میں قید ہو جاتے ہیں ویسے ہی ”پُرفتن دور“ کی شرانگیزیوں سے بچنے کے لئے ہم ایک کے بعد دوسرا حصار کھڑا کرتے گئے۔ اگر ماضی بعید کے کسی دور میں یہ حکمت عملی درست تھی بھی تو اب اپنی افادیت کھو چکی ہے کیونکہ فوج قلعہ بند ہو تو اس سے ترنوالہ اور آسان ہدف اور کیا ہو سکتا ہے۔ لڑائی کے انداز بدلے گئے ہیں اگر آپ یورپ کی مدر پدر آزادیوں سے بچنا چاہتے ہیں تو کچھ قلعے آپ کو خود مسمار کرنا ہوں گے‘ کچھ حصار اپنے ہاتھ سے توڑنا ہوں گے۔ آپ حوا کی بیٹیوں کو پردہ کراناچاہتے ہیں میں کہتا ہوں اپنی عقل پر پڑے پردے اُتار دیں بے پردگی خود بخود ختم ہو جائے گی۔
تازہ ترین