• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے کچھ دوستوں کاخیال ہے کہ میں کچھ دنوں سے تصوف کی طرف مائل ہورہا ہوں، ان کا یہ خیال جزوی طور پر ٹھیک اور جزوی طور پر غلط ہے اور وہ یوں کہ تصوف میرا خاندانی ورثہ ہے، چنانچہ اس حوالے سے”کچھ دنوں“ والی بات درست نہیں ہے، اور دوسرے میں جس تصوف کا قائل ہوں اس میں توہمات اور من گھڑت روایات کی کوئی گنجائش نہیں، میرا تصوف اللہ کے ذریعے اس کے بندوں اور اس کے بندوں کے ذریعے اللہ تک پہنچنا ہے۔ ہمارے صوفیاء جن میں میرے بزرگ بھی شامل ہیں ان کا طریق بھی یہی تھا۔ میری زندگی میں ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی گوشے میں بیٹھ جاؤں اور غور و فکر کروں کہ میرا رب کیسا ہے، اس کا ہمارے معاملات سے کیا تعلق ہے وہ ہماری گریہ زاری سنتا ہے تو اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے ،کیا ہمارے مسائل محض گریہ زاری سے حل بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ یہ اونچ نیچ کیوں ہے، یہ حاکم اور محکوم اور یہ ظالم اور مظلوم کیا ہیں، کیا ان کا حساب کتاب صرف مرنے کے بعد ہوگا یا ہم اپنی زندگیوں میں بھی انصاف ہوتا دیکھیں گے، یہ پراسرارکائنات کیا ہے اور اس میں بہت سے پراسرار واقعات کی کوئی مادی توجیہہ بھی ممکن ہے، مجھے جب کبھی ان سوالات پرغور کرنے کا موقع ملتا ہے تو عدم کا یہ شعر ایک حد تک میری رہنمائی کرتا ہے۔
آگہی میں اک خلاء موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
لیکن خدا تو یقینا موجود ہے اس نے قوموں کی طرف نبی بھی بھیجے ہیں لیکن اس کے باوجود سب کچھ جوں کا توں کیوں ہے؟ پس ماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام دونوں مختلف النوع مسائل کا شکار ہیں کہیں اس کی وجہ ترقی کے ثمرات کی افراط اور کہیں تفریط ہے، عالم اسلام سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے، یہاں لوگ ایک دوسرے کاگلہ اسلام ہی کے نام پر کاٹ رہے ہیں جب کبھی مجھ پہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے، مجھ پر ان سوالوں کے کچھ در وا ہوتے ہیں اور میں اس رات سکون کی نیندسوتا ہوں اور جب کچھ پتہ نہیں چلتا تو ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہوں ان دنوں اسی کیفیت میں ہوں۔
گزشتہ ہفتے میں نے اپنے دوست پروفیسر احمد حسن حامد کی دفات کے حوالے سے ایک کالم لکھا جس میں موجود پراسراریت مجھے ایک بار پھر حیات و لمحات کی گنجلک وادیوں میں لے گئی، میں نے اپنے طور پر اس کی روحانی توجیہہ تو تلاش کرلی لیکن میری خواہش تھی کہ میرے وہ دوست جومادہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں وہ اگر اس واقعہ کی مادی توجیہہ بیان کرسکتے ہیں تو کریں، چنانچہ میرے عزیز دوست اور دانشور وجاہت مسعود نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ان کا کہنا تھا کہ معلوم پر غیرمعلوم کو ترجیح نہیں دی جاسکتی، اب میرے ایک اور مہربان آصف بٹ ایڈووکیٹ صاحب نے میرے تجسس کی تسکین کی کوشش کی ہے، مگر میں ابھی تک اس سوال کے جواب کا منتظر ہوں جو مجھے مضطرب اور بے قرار رکھے ہوئے ہے، آپ یہ خط ذیل میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
مکرمی جناب عطاء الحق قاسمی صاحب
السلام علیکم!
14جولائی کو اپنے دوست احمد حسن حامد کی رحلت کی اطلاع پر آپ ان کے گھر گئے تو ان کے بیٹے نوید نے آپ کو ایک خبر دے کر دریائے حیرت میں اتاردیا کہ دو ماہ سے ان کے والد اور آپ کے دوست وقفے وقفے سے اہل خانہ کو14جولائی کو آمدہ رات کو جشن منانے کی تیاریوں کی تلقین کرتے رہے اور وہ عین اسی روز یعنی14جولائی وفات پاگئے ا ور ان کا جسد خاکی دفنا دئیے جانے کی بجائے رات بھر گھر میں پڑا رہاکہ لندن سے ان کی بیٹی کا انتظار تھا۔ اس طرح تمام رات اس گھر میں جشن آہ و گریہ بپا رہا،
جناب قاسمی صاحب! انسان فطرت کے عجائبات میں حیران کن عجوبہ ہے، ویسے تو چیونٹی کے احوال و ظروف ہی حیرت کی گہری اور تاریک کھائی میں اتارے جانے کے لئے کافی ہے، سائمن مچھلی کے سینکڑوں میل دور جاکر انڈے دینے اور پانی کی تہہ میں پتھروں سے ڈھانپتے ہی فنا ہوجانا اور پھر انڈوں سے برآمد ہونے والے بچوں کے اسی ندی میں واپس پہنچ جانا جہاں سے انہیں جنم دینے والی مچھلی آئی تھی، میں بھی استعجاب کے سارے ہی ساماں موجود ہیں۔ گھوڑے کا میلوں دور زمین پر پڑنے والے کسی کے پیروں کی چاپ سن کر کان کھڑے کرلینا، زلزلے سے پہلے ہی حشرات الارض کا بلوں سے باہر نکل آنا اور بعض پرندوں کے خبردار ہوجانے میں بھی تو صدساماں ہائے تحیر کا فطری انتظام پایا جاتا ہے لیکن انسان…!!کہ جس نے شعور کی منزل کو پاتے ہی اپنے آس پاس پھیلی ڈراؤنی اور نہ سمجھ آنے والی اپنی معاند و مخالف فطرت کوسمجھنا اور بدلنا ہی اپنا منتہائے مقصد قرار دے دیا ہے اور آج تک اسی خبط میں مبتلا ہو کر اپنی ذات یا خودشناسائی سے مسلسل مجرمانہ غفلت برتتا چلا آرہا ہے۔
جناب والا! سورة روم میں روم کے غلبے اور فارس کی مغلوبی کی بشارت تو ا ٓپ کے علم کا حصہ ہے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تو اللہ نے اپنے رسول کریم کے لئے وحی کے ذریعے انتظام کیا تھا کیا شہد کی مکھی کو (بقول قرآن حکیم)اللہ نے وحی کے ذریعے راستے نہیں سجا اور سمجھا رکھے، کیا اللہ تعالیٰ موسیٰ  سے خطاب فرماتے ہوئے یہ نہیں کہتے کہ یاد کرو موسیٰ  جب ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی بھیجی کہ تمہیں ٹوکری میں ڈال کر دریا کے حوالے کردے، حالانکہ موسیٰ  کی والدہ ماجدہ نبی تو نہ تھیں پھر وحی کا مطلب! انبیاء ورسل کی طرف وحی نوع انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے ہوتی ہے جبکہ بقیہ مخلوقات کے مخفی ادراکات کے حصے کے طور پرانسانوں کی معنوی ذات پر مخصوص کیفیات کے دوران بعض اوقات ماضی ،حال اور مستقبل موئے قلم سے ٹپکے ایک نقطہ پر یکجا ہوجاتے ہیں۔ اس میں بسا اوقات مذہب، دینداری اور راست بازی بھی لازمہ نہیں ہوتی، اس سلسلہ میں ناسٹرے ڈیمس پرغور فرمالیجئے کہ تقریباً چھ سو برس قبل اس نے موہوم انداز میں آنے والی صدیوں میں ممکنہ طور پر پیش آنے والے واقعات کیسے مرتب کئے ہیں۔
جناب قاسمی صاحب !سائنس کفر و الحاد نہیں بلکہ فطرت کی کارفرمائیوں(Work of God)پر غور و فکر کرکے ان کی تہوں میں پوشیدہ اور متحرک و خالق قوانین کے ادراک کا عمل ہے۔ سائنس کے مطابق کائنات میں پھیلائی گئی مادے کی لامنتہا شکلوں اور مقدار میں سے کوئی قدر جب کسی نئی کیفیت میں ڈھلتی ہے تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شکل اختیار کرنے سے پہلے اپنے قوانین اخذ نہ کرے۔ خدائی تقسیم کی مصلحتیں آج تک کسی کی سمجھ آئی ہیں نہ کبھی یہ ممکن ہو پائے گا کہ انسان انہیں سمجھ سکے۔ اقتدار،دولت، غنائیت، عقل اور فن تقسیم کی طرح ان صلاحیتوں کا عطا کیا جانا جنہیں ہم روحانی کہہ کر جان چھڑوا لیتے ہیں اور خود کو بحر حیرت کی موجوں کے حوالے کردیتے ہیں، اپنے اندر دلچسپی کے بے شمار خزانے لئے ہوئے ہیں، جیسے شاعر، مغنی، مصور، سائنسدان، فلسفی اور نثرنگار کے لئے فطرت نے شرعی پیمانے اس میخانے سے منہا کررکھے ہیں۔ اسی طرح مستقبل بینی کے وقتی یامستقل اوصاف کے لئے بھی یہ لازم و ملزوم نہیں ہیں، ایک ہارڈ ڈسک ہے جو جہاں اور جس وقت چل جائے ماضی حال اور مستقبل ایک نقطے پر سمٹ آتے ہیں۔ زماں و مکان درمیاں میں حائل پردہ سمیں کی طرح خود کو لپیٹ لیتے ہیں۔ انسان کو” سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں ،ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے“ کے خبط سے فراغت پاکر ذرا خود اپنی ذات کے عرفان کے سفر پر نکلنے دیجئے جب وہ تھوڑا سا جان جائے گا کہ وہ خود کیا شے ہے حیرت و استعجاب سے اس کا منہ صدیوں تک کے لئے کھلا کا کھلا رہ جائے گا۔
دل دریا سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانے ہو
وچے گھیڑے ،وچے چھیڑے تے وچے ای ونج مہانے ہو
تازہ ترین