• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو عوام کی نظروں میں تاحال ایک طاقت ور بیانیہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس بیانیے کی طاقت میں کمی اور اس کے بوجھ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جسے اٹھانے کے لئے ان کی اپنی پارٹی کے چوٹی کے لیڈربھی اب اُن کی حمایت کرنے سے کتراتے نظر آرہے ہیںجس کی ایک وجہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ریاست کے جس ستون سے اس بیانیے کو منوانے کی کوشش، مطالبہ اور مقابلہ کرتی نظر آرہی ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے اکثر سیاستدانوں کی نظروں میں اول تو ریاست کے اس ستون سے ٹکرانا ریاست کی جڑوں کو ہلا دینے یا ریاست کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، پھر نہ صرف ان کی اپنی پارٹی ن لیگ بلکہ حکومت سمیت تمام اہم پارٹیوں کے رہنما ملک میں سیاست کرنے کےلئے ریاست کے اس اہم ترین ستون کی اشیر باد کے ہمیشہ ہی متمنی ر ہے ہیں، دوسری جانب محترمہ مریم نواز اور ان کی پارٹی کے چند ارکان میاں نواز شریف کے اس بیانیے کو لیکر وہ تمام حدیں پار کرنے کو تیار نظر آتے ہیں جسے ریاست اور سیاست میں ریڈ لائن قرار دیا جاتا ہے جسے پار کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ اس ریڈ لائن کے قریب پہنچ کر محترمہ مریم نواز خود کو اکیلا محسوس کرنے لگی ہیں، گزشتہ دنوں اپنے خلاف احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران انھیں احتساب عدالت کے فیصلے اور ایک ریاستی ادارے کی اہم شخصیت کے خلاف الزامات عائد کرتے وقت ایک صحافی کے سوال کے جواب میں یہاں تک کہنا پڑگیا کہ عدالت میں میری پٹیشن اور آج کی پریس کانفرنس میر ا اور میاں نواز شریف کا ذاتی معاملہ ہے اس حوالے سے میری پارٹی کو بیچ میں نہ لایا جائے، یعنی میاں نواز شریف کے بیانیے کو لیکر ن لیگ میں اختلافات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں، اس حوالے سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اوروزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیانات جس میں وہ ن لیگ میں دو اور تین گروپوں کی بات کرتے ہیں تو اس میں کچھ حقیقت نظر آنے لگتی ہے کیونکہ میاں شہباز شریف مفاہمت کی جس پالیسی کے علمبردار ہیں اس میں ریاستی اداروں سے ٹکرائو کا اصول موجود نہیں ہے اسی طرح کا بیان گزشتہ دنوں حمزہ شہباز نے بھی دیا تھا کہ ن لیگ کا کسی ادارے سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ ن لیگ کا اختلاف صرف تحریک انصاف اور عمران خان سے ہے لیکن اس بیان کے اگلے ہی روز مریم نوازملک کے اہم ترین ریاستی اداروں کے خلاف میڈیا میں گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے اندرونی اختلافات کو کھول کررکھ دیتی ہیں۔

بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ خواجہ آصف جس طرح میاں نواز شریف کے بیانیے پر معذرت خواہانہ انداز میں ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب ریاستی اداروں سے مزید کسی لڑائی کے موڈ میں نہیں ہیں جبکہ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواجہ آصف سمیت کم از کم چھ پارٹی لیڈر ن لیگ کی اندرونی جنگ اور ریاستی ادارے کے خلاف خطرناک بیانیے سے اکتا چکے ہیں اور سائیڈ لائن رہنے کو ہی بہتر آپشن سمجھتے ہیں جبکہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حال ہی میں سیالکوٹ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں طارق سبحانی کی شکست بھی پارٹی قیادت کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ تھی جبکہ حکومت کے خلاف طاقت ور سیاسی اتحاد پی ڈی ایم میں اختلافات اور اسے کمزور کرنے میں بھی نواز اور شہباز گروپ کے اختلافات کو وجہ قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ میاں شہباز شریف پی ڈی ایم میں سے پیپلز پارٹی کو نکالنے کے مخالف تھے تاہم مریم نواز اور ان کے ہم خیال ارکان پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے کے حق میں تھے، غرض صورتحال یہ ہے کہ سیاست کی تھوڑی سی بھی سمجھ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کا بیانیہ ایک ناقابلِ عمل بیانیہ ہے اور جس ادارے سے ووٹ کے لئے عزت مانگی جارہی ہے وہ خود ووٹ کی عزت کا محافظ ہے لہٰذا اس بیانیے کے بوجھ سے ن لیگ خود دبتی محسوس ہورہی ہے، بلاشبہ عوام میں مقبولیت کے حوالے سے ن لیگ ہی سب سے مقبول جماعت ہے لیکن خدشہ ہے کہ کہیں اس بیانیے کے بوجھ تلے دب کر ن لیگ کی مقبولیت کو نقصان نہ پہنچ جائے جس کے نتائج اسے اگلے انتخابات میں نقصان کی صورت میں نہ بھگتنے پڑیں، دیکھنا ہوگا کہ ووٹ کو عزت دو کا یہ بیانیہ کس کےلئے فائدہ مند اور کس کےلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین