• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے پاس دولت ہوتی تو وہ خوش رہتے۔ دوسری طرف دنیا میں خوشی اور غم دینے والے کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں۔ وہ ہر شخص پہ نازل ہوتی ہیں۔ ان چیزوں میں سرِ فہرست ہے جسم میں موجود امیون سسٹم۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جو جسم میں داخل ہونے والے ایک اجنبی ذرے پر بھی پل پڑتا ہے۔ اسی امیون سسٹم کا کرشمہ ہے کہ کرہ ء ارض کے اربوں افراد میں سے زیادہ تر آلودہ پانی پینے کے باوجود جلدی موت کا شکار نہیں ہوتے۔جن لوگوں کے گردے، جگر یا کوئی اور عضو ناکارہ ہو جائے اور انہیں وہ عضو پیوند کرانا پڑے تو ان کا امیون سسٹم اس اجنبی عضو کے خلاف بھرپور اعلانِ جنگ کر دیتاہے۔مجبوراً ڈاکٹر اس شخص کو ایسی دوائیاں دیتے ہیں، جس سے امیون سسٹم کمزور ہو جائے۔ وہ زیاد ہ تر بیمار ہی رہتا ہے بلکہ ایک زندہ لاش۔ سب امیروں اور غریبوں میں یہ امیون سسٹم موجود ہے۔ اس کی قیمت کھربوں ڈالرز میں بھی ادا نہیں کی جا سکتی۔ اسی امیون سسٹم کا کرشمہ ہے کہ جو لوگ علاج نہیں بھی کراتے، وہ بھی زیادہ تر کیسز میں لوٹ پوٹ کر خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔یہ امیون سسٹم سب جانداروں میں پایا جاتاہے۔ جنگلات میں زندگی گزارنے والے کھربوں جانور کسی بھی ڈاکٹر تک رسائی نہ ہونے کے باوجود موت سے پہلے تک اپنی زندگی با آسانی جیتے ہیں۔امیون سسٹم، خون کا جمنا، ٹانسلز، یہ سب ایسی چیزیں ہیں، جن میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں۔ اسی طرح جسم کاا سٹرکچر؛ سخت کھوپڑی اور ہڈیاں ہی وہ بنیادی نظام ہیں‘ جو جسم کو مہلک چوٹ سے بچاتی ہیں۔ الّا یہ کہ بندے کا وقت پورا ہو چکا ہو‘ یہ کھوپڑی اور ہڈیاں انسان کو بچا ہی لیتی ہیں۔ اسی طرح زخم کا بھرنا وہ نعمت ہے‘ جو کہ سب انسانوں بلکہ سب جانداروں کو دی گئی ہے۔ ہمارے جسم پر کوئی زخم لگے تو ایک کھرنڈ یا سخت تہہ اس کے اوپر بن جاتی ہے۔ نیچے زخم بھرتا رہتاہے۔ جب پوری طرح بھر جاتاہے تو پھر یہ اوپر والی سخت تہہ آہستہ آہستہ اتر جاتی ہے۔ سب جسمانی اور ذہنی معاملات میں امیر اور غریب برابر ہیں۔ دونوں بڑھاپے اور بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔آپ عمر شریف صاحب کا کیس دیکھ لیجیے۔ دولت، شہرت، تعلقات اور پرستاروں کی انہیں کوئی کمی نہیں تھی۔ ائیر ایمبولینس میں جرمنی لے جائے گئے مگر انسان کو اس دنیا میں بے بس پیدا کیا گیا ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کو کھربوں ڈالر دے کر بھی روکا نہیں جا سکتا۔ ایک امیر شخص جو کہ بوڑھا ہے‘ اس کے مقابلے میں ایک غریب لڑکا جسمانی قوت اور جوش وجذبے کی وجہ سے خواہ مخواہ سیٹی بجاتا رہتاہے۔ بہت سی دوسری چیزیں بھی کم اہم نہیں‘ مثلاً:اچھی بیوی۔ میرا ایک دوست ٹیکسی ڈرائیور ہے، جو ہمیشہ جھولی اٹھا اٹھا کر اپنی بیوی کو دعائیں دیتا ہے۔ دوسری طرف بہت سارے امیر لوگ اپنی بیویوں کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں۔ کچھ بیویاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ شوہر آفس سے دس منٹ لیٹ ہو تو اسے فون پر فون کرتی ہیں۔اسی طرح امیر باپ کی بیٹی کو اچھا شوہر ملے، یہ بالکل ضروری نہیں۔ امارت اس چیز کی ضمانت نہیں کہ آپ کو اچھی اولاد ہی ملے گی۔ باوجود بے انتہا دولت کے اولاد انتہائی نافرمان بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ غریب لوگوں کو مثالی اولاد ملتی ہے جو کہ ساری زندگی ماں باپ کی خدمت کرتی رہتی ہے۔شدید بڑھاپے میں ذاتی طور پر اپنے ماں باپ کا خیال رکھتی ہے۔ ان چیزوں میں امیر اور غریب کی تخصیص نہیں بلکہ ان کا تعلق قسمت سے ہے۔ حدیث کی روشنی میں رزق وہ وسائل ہوتے ہیں‘ جو انسان دنیا میں واقعی استعمال کر لیتاہے۔ جیسے میں نے دن میں دو روٹیاں کھانی ہیں اور جس مٹی کی اینٹوں سے بنے ہوئے،جس کمرے میں رہنا ہے،جس لکڑی کے بنے پلنگ پر سونا ہے، وہ میرا رزق ہے۔ اس حساب سے اگر آپ دیکھیںتو غریب مزدور جسمانی کام کاج اور زیادہ بھوک کی وجہ سے ایک وقت میں تین چار چپاتیاں کھا جاتے ہیں۔ انسان کے پاس اکائونٹ میں جتنی دولت بھی موجود ہو،وہ زیادہ بھوک پیدا نہیں کر سکتی۔ جتنی بھی زمینیں موجود ہوں، وہ ایک ہی کمرے میں سو سکتاہے۔

ایک بہت اہم چیز جسمانی مشقت ہے۔ میڈیکل سائنس یہ بتاتی ہے کہ جسمانی کام کاج کرنا صحت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اسی لئے لوگ لاکھوں روپے لگا کر جم بناتے ہیں اور اس میں محنت کرتے ہیں جبکہ غربا کی اکثریت جسمانی مشقت کرنے پر ویسے ہی مجبور ہے۔یوں وہ جسمانی طور پر امیروں سے زیادہ فٹ رہتے ہیں۔ جسمانی فٹ نس‘ جس قدر مسرت انسان کو دیتی ہے‘ یہ وہی جان سکتاہے‘ جس نے کبھی بھرپور جسمانی مشقت کی ہو۔ ذہنی سکون کس کے پاس زیادہ ہے؟ امیر کے پاس بھی ہو سکتاہے اور غریب کے پاس بھی۔ سکون کا تعلق بھی دولت سے نہیں۔ بادشاہوں کو زیادہ تر مضطرب دیکھا گیا ہے۔ اسے آخری وقت تک یہی سمجھ نہیں آتی کہ کون اس کے ساتھ مخلص ہے اور کون دشمن کا ہرکارہ۔ انسانی خواہشات اتنی زیادہ رکھی گئی ہیں کہ ایک وسیع و عریض سلطنت کا مالک بھی مطمئن نہیں رہتا ۔

تازہ ترین