• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طہورہ شعیب ، کراچی

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ،جو انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے دو چیزوں کو منبع و مصدر ہدایت قرار دیتا ہے۔ایک، کلامِ الٰہی اور دوسرا سیرتِ محمّدی ﷺ۔ سفرِ حیات کی سمت کا درست تعیّن کرنے کے لیے قرآن و حدیث کامل قطب نما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ پر ایمان،اُن کی سیرتِ مبارکہ کو راہِ عمل مانتے ہوئے ، اتباع کرنا اسلامی عقائد کا لازمی حصّہ ہے۔نبی کریم ﷺ کی محبت و اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے ،جس کے بغیر ایمان کی تکمیل ہوہی نہیں سکتی۔ 

اللہ ربّ العالمین نے قرآنِ کریم میں واضح الفاظ میں فرمایا’’نہیں ، اے محمّد ﷺ! تمہارے ربّ کی قسم،یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے ،جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔ (النساء-65)‘‘ایک اور مقام پر فرمایا ’’دَرحقیقت ،اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک پیغمبر اُٹھایا، جو اس کی آیات انہیں سناتا، اُن کی زندگیاں سنوارتا اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے قبل لوگ صریح گُم راہی میں پڑے ہوئے تھے، (آلِ عمران)‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریمﷺکی زندگی قرآن کی عملی تفسیر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم و مہربانی ہے کہ اس کے احکامات کی اطاعت کا عملی نمونہ ہمیں حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ کی جزیات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے ملا۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے انسانیت کو ظلم اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر فلاح اور روشنی کے راستے پر گام زن کیا۔ معاشرے کے ہر مجبور و بے کس طبقے کے حقوق وضع کیے۔

کوئی بشر اور جان دار آپ ﷺ کی محبت سے فیض یاب ہوئے ۓ بغیر نہ رہا۔اس بات کی گواہی خودخالقِ کائنات نے اپنے کلام میں ثبت کی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اے پیغمبرؐ !یہ اللہ کی بڑی رحمت اور مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیں تم تند خُواور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چَھٹ جاتے۔(آلِ عمران۔ 159)‘‘

نبی کریم ﷺکی حیاتِ طیّبہ پر نظر ڈالی جائے، تو آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ میں سب سے نمایاں وصف نرمی اور حِلم ہے۔یہ حضور ﷺ کا وہ وصفِ خاص تھا ،جس نے دشمنِ جاں کو بھی شِیر و شکر کردیا۔ آپؐ کی نرم گفتاری، نرم مزاجی اور نرم گوئی ہی نے گم راہی اور جہالت میں مبتلا لوگوں کے دل مسخر کیے۔آپ ﷺ اپنے اخلاق سے فاتح زمانہ ہوئے۔

بحیثیت نبی،معلّم و مربّی،داعی،واعظ،قائد،سپہ سالار، حاکمِ وقت، سماجی رہنما، والد، شوہر،ہر رُوپ ، ہر گوشۂ زندگی میں آپؐ کاحِلم کا پہلو بہت واضح نظر آتا ہے۔ علّامہ شبلی نعمانی اور سیّد سلیمان ندوی رحمہم اللہ کی شہرۂ آفاق کتب ،سیرت النّبیﷺ میں بہت تفصیل سے اخلاقِ نبوی ؐدرج ہیں، جن کا مطالعہ ہر اس فرد کو کرنا چاہیے، جو اخلاقِ نبوی ﷺ اختیار کرنے کی تمنّا و جستجو رکھتا ہے۔آئیں، نبیِ کریم ﷺ کی نرم خوئی و نرم دلی کے چند واقعات پر مختصراًنظر ڈالتے ہیں۔

جانوروں کے ساتھ حُسنِ سلوک

رسول ﷺ ایک دفعہ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے ،جس کی پیٹھ پیٹ سے چپک گئی تھی۔آپ ﷺنے فرمایا’’ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ ان پر اچھی حالت میں سوار ہو اور ان کو اچھی حالت میں کھاؤ۔‘‘(سنن ابی داؤد۔کتاب الجنائز) ۔اسی طرح ایک مرتبہ ایک چڑیا کو بے تاب دیکھا تو فرمایا’’کس نے اس کے بچّوں کو دُور کرکے اسے دکھ دیا ہے؟اسےاس کے بچّے لوٹاؤ۔‘‘

جانوروں پر رحم سے متعلق احادیث کی بنیاد پر فقہانے حلال جانوروں تک کے شکار کے لیے اصول وضع کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلا ضرورت شکارکرنے اور شکار شدہ گوشت ضایع کرنےکی ممانعت کی گئی ہے۔حضرت جابر ؓ سے مروی وہ واقعہ ،جس کے مطابق درخت کے تنے کا آپ ﷺ کی جدائی میں (منبر رسول پر منتقل ہونے پر) رونا، نہ صرف معجزہ ، بلکہ جان داروں کی آپ ﷺ سے محبت و وارفتگی کا خُوب صُورت مظہر بھی تھا۔

بچّوں کے ساتھ حُسنِ سلوک

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ ’’آپ ﷺنماز پڑھ رہے ہوتے،اس دوران سجدے کی حالت میں حضرت حسن و حُسین رضوان اللہ اجمعین ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے، توآپ ﷺ انہیں کبھی نہ اتارتے، یہاں تک کہ وہ خود اتر جاتے۔‘‘حضورﷺ کے بیٹے ابراہیم کی کم سِنی میں وفات ہوئی تو آپﷺ کے آنسو دیکھ کر لوگوں نے تعجّب کا اظہارکیاتو فرمایا’’یہ تو رحمت ہے، جو اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں ڈال دی ہے۔‘‘ پھر اللہ کی رضا میں راضی رہنے کا اظہار فرماتے ہوئے کہا ’’اے ابراہیم ! تیرے غم میں آنکھ آنسو بہاتی ہے۔تیری جدائی میں دل غم گین ہے، مگر ہم اللہ کی رضا میں راضی ہیں۔‘‘

ایک واقعہ اقرع بن حابس کا بھی روایت کیا جاتا ہے، جس نے آپ ﷺ کو حضرت حسن بن علیؓ کو بوسہ دیتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہا ’’میرے دس بیٹے ہیں، مَیں نے تو کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔‘‘حضور ﷺ نے فرمایا’’جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘

صحیح البخاری میں حضور ﷺکی جانب سے نماز میں تخفیف (مختصر تلاوت) کا واقعہ بھی مروی ہے، جو بچّے کے رونے کی آواز سُن کر آپﷺنے فرمائی تھی اور فرمایا ’’یہ اس لیے کہ بچّے کی ماں، بچّے کے لیے فارغ ہوجائے۔‘‘

کفار و مشرکین کے ساتھ حُسنِ سلوک

دَورِ جاہلیت میں جنگوں میں مخالف قوم یا گروہ کی جان، مال، عزت آبرو روند دینے کوفتح سے تعبیر کیا جاتا تھا۔لیکن جب نبی کریم ﷺ نے سپہ سالار کی حیثیت سے جنگی پالیسی وضع کی ،تو رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے یہ حکم جاری کیا کہ جنگ کی صُورت میں بوڑھوں،عورتوں اور بچّوں کو نقصان نہ پہنچایا جائےاورنہ ہی لاشوں کی بے حُرمتی کی جائے۔ یہی نہیں، کفر و شرک پر قائم رشتے داروں سے روز مرّہ کے معمولات میں اذیّتیں برداشت کرکے بھی آپ ﷺکا رویّہ ان کے لیے نہ بدلتا تھا۔

فتحِ مکّہ کے عظیم موقعے پر جانی دشمنوں سمیت تمام دشمنان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک عالم کی فتح کے باوجود ان کے دل میں نفرت، انتقام، کبر کا کوئی جذبہ نہ تھا۔ ذرا سوچیں کہ کیا آج کی مہذّب دنیا میں اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے؟

کم زوروں کے ساتھ حُسنِ سلوک

عرب کے معاشرے میں غلاموں،یتامیٰ، مساکین کو معاشرے کا کم زور ترین طبقہ گردانا جاتا تھا، جس کے باعث ان کی تحقیر و حق تلفی ایک عمومی رجحان تھا۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف اس روایت کو بدلا ،بلکہ سب کے حقوق متعیّن کرکے سماجی توازن بھی قائم کیا۔ اور غلاموں کے بارے میں واضح فرمایا’’یہ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے انہیں تمہارا زیرِ دست کیا ہے۔سو،تمہیں چاہیے کہ جو خود کھاؤ، وہی انہیں بھی کھلاؤ،جو خود پہنو،انہیں پہناؤ اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔‘‘

حضرت زید بن حارثہؓ نے غلام ہونے کے باوجود اپنے والدین کے ساتھ واپس جانے سے منع کردیا تھا، جس کی بنیادی وجہ آپ ﷺ کے اخلاق اور حلم الطبع تھی۔ یتامیٰ، مساکین پر فیّاضی سے مال خرچ کرنا،اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھنا،اُن کے ساتھ اچھے سلوک پر جنّت میں اپنی ہم سائیگی کی بشارت دے کر ترغیب دینا، ان کو سماجی حیثیت و مقام دینا نبی کریم ﷺکے معمولات کا حصّہ تھا۔

خواتین کے ساتھ حُسنِ سلوک

آپ ﷺخواتین سے معاملہ داری میں حُسنِ سلوک اور نرمی کو کس قدر اہمیت دیتے تھے،اس کا اندازہ خطبۂ حجتّہ الوداع میں خواتین کے ساتھ احسن طریقے سے زندگی گزارنے کے حکم سے ہوتا ہے۔ ابنِ ماجہ کتاب النکاح میں فرمانِ نبویﷺ درج ہے، ’’یاد رکھو،تم میں سےبہتر وہ لوگ ہیں ،جو اپنی عورتوں (بیویوں ) کے لیے بہتر ہیں۔‘‘ایک موقعے پر صحابہ کرام رضوان اللہ سے فرمایا’’اللہ کے بندو! میرے گھر والوں کے پاس کثیر تعداد میں عورتیں اپنے شوہروں کی شکایات لے کر آئی ہیں۔

تمہارے اندر ایسا طرز عمل اختیار کرنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں۔‘‘ عورت کو آبگینے جیسی خُوب صُورت تشبیہ دی ،وہ بھی اُس سماج میں ،جہاں بیٹی زندہ درگور کردی جاتی تھی۔ہمارے نبیِ محترم تو خود اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہوجاتے،بے تحاشا مصروفیات اور نبوی مشن کے بارِ عظیم کے باوجود، اپنی ہر زوجہ کا حق ادا کرتے۔ فی الواقع اس طرزِ عمل میں ہر ایمان والے شخص کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جو آپﷺ کی بیویوں کے ساتھ نرم سلوک پر شاہد ہیں۔

ساتھیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک

رزمِ حق وباطل میں فولاد کی مانند آپﷺکا رویّہ اپنے اہلِ ایمان رفقاء کے ساتھ بے حد عفو و حِلم پر مبنی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صحبت و حلقہ نبی ﷺ میں بیٹھنے والے ہر فرد کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ نبیﷺ کو زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،حضرت علیؓ،حضرت ابوہریرہؓ،حضرت عبداللہ بن زبیر ؓسمیت دیگر صحابۂ کرام سے شگفتہ گفتگو اور کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے۔ان کا کبھی آپس میں سختی کا رویہ دیکھ لیتے تو اس پر ناگواری کا اظہار کرتے۔

اُمّت پر شفقت

سیرتِ مطہّرہﷺ میں اُمتِ مسلمہ کے لیے دُعاؤں کا تذکرہ بہت نمایاں ملتا ہے۔اَن دیکھے اُمتیوں کے لیے آپﷺ جس قدر دل سوزی اور تڑپ سے دُعائیں کیا کرتے تھے ،اس کا اندازہ مختلف واقعات سے ہوتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ہر نبی کی ایک دُعا ہوتی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی وہ دُعا قیامت کے دن اپنی اُمّت کی شفاعت کے لیے مؤخر کردوں۔‘‘آپؐ ؐ پر تلاوتِ قرآنِ پاک اور نماز کے دوران سخت اور احتساب والی آیات پر گریہ طاری ہو جاتا،اُمّت کی مغفرت کے لیے کثرت سے دُعا کرتے ۔بلاشبہ ،نبیِ کریم ﷺکی حیاتِ طیّبہ کی یہ تابندہ مثالیں ،جوآپؐخود عملاً قائم کرکے گئے ۓ، اُمتِ محمدیؐ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

جاہلیت کا رشد و ہدایت میں بدل جانا،ظلم کاخاتمہ اور انصاف کا بول بالا ہونا، کلامِ الٰہی کی اثر انگیزی، بہترین نظام کے ساتھ وہ اخلاقی قوّت تھی، جس نے سر تا پا لوگوں کو بدل دیا اور برسوں پرانی روایات چھوڑنے پر مجبور کیا۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی سنّت واطاعت پر عمل پیرا ہوئے بغیر نہ ایمان کی تکمیل ممکن ہے، نہ ہی ربّ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے کہ اللہ ربّ العالمین نے اپنی رضا نبی کریم ﷺ کی اطاعت کے ساتھ مشروط کردی ہے۔

نبی کے اخلاقِ حسنہ میں سے نرمی اور عفو ودرگزر وہ وصف ہے،جو ہمارے معمولات میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔آج بھی اگر معاشرے میں نرم خوئی کا یہ نبوی اُسوہ اختیار کرلیا جائے، تو بہت سے سماجی مسائل سے نجات مل سکتی ہے، توکئی نفسیاتی بیماریاں بھی ختم ہوسکتی ہیں۔یہی نہیں،انفرادی و اجتماعی زندگی کا اضطراب بھی سکون میں ڈھل سکتاہےاورکئی ٹوٹتے ہوئےخاندان بھی بچ سکتے ہیں۔بلاشبہ نرم خوئی، دِلوں میں گنجائش پیدا کرنے کی زبردست قوت رکھتی ہے اور حُسنِ اخلاق اس کے بغیر تشنۂ تکمیل ہے۔

تازہ ترین