• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر دنیا کے تمام ممالک کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ کچھ ملک مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہیں اور کچھ شدید تنزلی کا شکار ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان کا شمار کسی صورت نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی ملک ہے جو کبھی ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑنے لگتا ہے اور کبھی تنزلی کی کھائیوں میں ٹھوکریں کھاتا اپنے وجود کی بقاء کے لئے سر ٹیکتا نظر آتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے ابتدائی زندگی سے ہی بڑے منصوبوں کے قیام سے ثابت کر دیا کہ وہ قوموں کی تاریخ میں اپنے مثبت کردار اور حکمت ِ عملی سے منفرد مقام حاصل کرے گا۔ منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے بڑے پانی کے ذخائر، پی آئی اے جو دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں شمار ہوتی تھی۔ اسٹیل مل، جنوبی ایشیاء کی پہلی موٹر وے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایٹمی صلاحیت حاصل کی۔ ترقی پذیر ممالک میں سب سے پہلے آپٹیکل فائبر اپنے ملک میں بچھانے والا بھی پاکستان ہی تھا۔ نوبل پرائز حاصل کیا۔ کرکٹ، ہاکی، اسکواش سمیت کئی کھیلوں میں پاکستان کی برتری کا سکہ جمایا۔ تعلیم اور سیاست میں عورتوں کو برابر کے حقوق دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے عوامل ہیں جو ایک روشن اور ترقی یافتہ پاکستان کی مضبوط بنیادیں تھے۔
دوسری طرف دیکھیں تو اتنی افرادی قوت اور اسلحہ کے باوجود ملک دولخت ہوا۔ دہشت گردی اور فرقہ پرستی کا شکار رہا۔ آج کی بھیانک صورتحال کے پس منظر میں ایک ہی وجہ درج نظر آتی ہے کہ جب جمہوری حکومتیں برسرِاقتدار آئیں ملک امن، ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر آگے بڑھتا رہا مگر آمرانہ قوتوں کے دیگر عزائم کے باعث آمریت کے ادوار میں یہ ترقی کے ٹریک سے نہ صرف دور ہو گیا بلکہ نمائشی اور وقتی خوشحالی کے پس منظر میں ملک و قوم کے ساتھ کئی کھیل کھیلے گئے، نفرت کی فصل کاشت کی گئی جو نگاہوں اور دلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری فضا، زمین اور سوچوں میں سرایت کر چکی ہے۔ سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لئے یہ وقت آزمائش سے زیادہ اذیت کا ہے اور یہی دکھ اور کرب گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان کے چہرے پر نظر آیا جن کی خوش مزاجی کے بہت چرچے ہیں۔ تلخ اور بے رحم اعداد و شمار سے مزین بریفنگ بذاتِ خود تمام حاضرین کے مزاجوں پر گراں گزر رہی تھی کیونکہ انرجی کا مسئلہ قومی بے بسی کا معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ اس بریفنگ میں سبز باغ نہیں دکھائے گئے بلکہ اعتراف کیا گیا کہ ہم مہنگی اور کم بجلی پیدا کر رہے ہیں جب کہ ہم سستی بجلی پیدا کر سکتے تھے اور آئندہ کے لئے یہی لائحہ عمل اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنائے جائیں نہ کہ مہنگی بجلی کے ذریعے مزید نقصان اٹھایا جائے۔ وزیراعظم کا میڈیا اور صحافیوں سے یہ پہلا باقاعدہ مکالمہ اور ملاقات تھی مگر ان کے چہرے پر سنجیدگی جسے اداسی کہنا چاہئے کے گہرے سائے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایک جمہوری قائد، جو پہلے بھی دو دفعہ اس منصب پر فائز رہ چکا تھا، کا تیسری دفعہ وزارت عظمیٰ تک پہنچنا تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ اور ایک معجزہ ہی تو تھا کہ وہ آمریت کے شکنجے سے نکل کر پھر جمہوریت کا پرچم سربلند کرنے کے لئے میدان میں آ گیا۔ اس کے چہرے پر کرب کی تحریر کہیں اس بات کی غماز تو نہیں تھی کہ اسے جب جب موقع ملا اس نے معاشی حوالے سے ملک کو ترقی کی موٹروے پر رواں کرنے کی کوشش کی مگر آمرانہ قوتوں نے ہمیشہ ملک کو پستی کی سمت دھکیلا اور آج اتنے برسوں بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک 1999ء سے بہت آگے جا چکا ہوتا مگر ایسا نہیں ہے بلکہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ معاملات الجھے اور حالات بگڑے ہوئے ہیں۔ آمریت کی جڑیں اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں اور آمریت کے پیروکار ابھی سے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ اب یہ نئے نئے روپ میں سامنے آ رہے ہیں جس طرح کہ کچھ ٹی وی اینکرز اور صحافی 12 اکتوبر 1999ء کی پوزیشن سے وزیراعظم کو طنزیہ انداز سے خبردار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ 12 اکتوبر سیاست دانوں کی ناکامی کے باعث ظہور پذیر نہیں ہوا تھا کیوں کہ اس وقت حکومت انڈیا اور افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عملدرآمد کرنا چاہتی تھی جب کہ ملک دشمن عناصر کو کچھ اور ہی مطلوب تھا۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوری تقاضوں کے منافی ہے بلکہ بہت تکلیف دہ ہے کہ ملک جب جمہوریت کی پٹڑی پر سفر شروع کر چکا ہے اور سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کے دانشور اور عوام اس نکتے پر متفق ہو چکے ہیں کہ اب اس ملک میں صرف جمہوریت کا نظام چلے گا تو ایسے وقت میں بار بار 12/اکتوبر کو یاد کرنا اور اس وقت کے لوٹ آنے کی خواہش کرنا یا اس سے ڈرانا کیا معنی رکھتا ہے؟ حکومت سے ناپسندیدگی کو جمہوریت دشمنی میں نہیں بدلنا چاہئے اور ہر تبدیلی کے لئے جمہوری طریقہٴ کار ہی اختیار کرنا چاہئے۔ آمریت کے خیر خواہوں کو اپنی سوچ کا محاسبہ کرنا ہو گا کیوں کہ اس سوچ کی پذیرائی دراصل آمریت کی پذیرائی ہے۔ خود کو عقلِ کل اور صرف اپنی رائے کو معتبر سمجھنے کے بجائے نظام میں بہتری کی صلاح دینی چاہئے۔
وزیراعظم کی اداسی ایک فرد یا ایک ادارے کی اداسی نہیں بلکہ یہ وہ دکھ ہے جس نے پوری قوم کی سوچ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ خاص و عام سب اس کرب کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں بلکہ حالات کو سنوارنے کے لئے پوری سوسائٹی کو یکجا ہونا پڑے گا کیوں کہ یہ ہم سب کی بقا کے لئے لازمی ہے۔ کسی بھی جمہوری حکومت کو ناکام بنانے کے خواب دیکھنا عوام دشمنی اور ملک و قوم سے بیگانگی کے مترادف ہے۔ میڈیا اور دانشوروں کو حکومت کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنی چاہئے اور اچھے کاموں کی شاباش اور غلطیوں کی نشاندہی ایک صحت مند رویہ ہے جس کی اس وقت اس ملک کو اشد ضرورت ہے۔
تازہ ترین