• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو کچھ ہو رہا ہے ، بہت اچھا ہو رہاہے۔ پاکستان کے لئے اچھا ہو رہا ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لئے بہتر ہو رہا ہے۔ عوام کی فلاح کے لئے درست ہو رہا ہے۔ غلاظت باہر آرہی ہے۔ سسٹم سے گند نکل رہا ہے۔ کرپشن کے قصوں کے گٹر ابل رہے ہیں۔ لاکھوں ، کروڑوں کی نہیں اربوں، کھربوں کی لوٹی ہوئی دولت سامنے آ رہی ہے۔ کھربوں کا سرمایہ اس ملک سے باہر گیا مگر کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوئی۔ جو تخمینے تبصرہ نگار پیش کر رہے ہیں وہ انسان کو مبہوت کر دیتے ہیں۔ ششدر رہنے کے سوا اس ملک کے عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا۔بات صرف اتنی ہے کہ ہم غریب نہیں بدقسمت لوگ ہیں۔ لوگوں کو اپنے ساتھ ہونے والی اس بد قسمتی کا اندازہ ہی نہیں ہے او راس ناسمجھی کی وجہ وہ جو ماتم کناں دانشوران ملت جو ہر روز شب ماتم سجاتے ہیں مگر اس مسئلے کی شدت سمجھا نہیں پاتے۔چلیں حساب لگانے کی خاطر فرض کرتے ہیں کہ ایک عام دیانتدار پاکستانی محمد سلیم کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے۔ جو کہ پاکستان جیسے نادار ملک میںاوسط آمدنی سے بہت زیادہ ہے۔ حساب لگانے کی خاطر یہ فرض کرتے ہیں کہ محمد سلیم تیس سال نوکری کرتا ہے ۔ تو اسکی ساری زندگی کی آمدنی ایک کروڑ اسی لاکھ بنتی ہے۔ یہ وہ کل آمدنی ہے جو ایک عام خوش حال پاکستانی ساری زندگی میں کماتا ہے۔ اسی میں وہ گھر والوں کا پیٹ پالتا ہے۔ ماں باپ کا علاج معالجہ کرواتا ہے۔ بچے پالتا ہے۔ انکی تعلیم کے اخراجات ادا کرتا ہے۔ بجلی ، گیس ، فون اور موبائل کا بل ادا کرتا ہے۔ مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ سواری کے لئے رقم خرچ کرتا ہے۔ خوشی ، غمی کے اخراجات ادا کرتا ہے۔ بچوں کی شادیاں کرتا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹریٹ استعمال کرتا ہے۔دوستوں سے ملتا ہے۔ سماجی روابط رکھتا ہے۔ اس ساری کاوش کے بعد تیس سال نوکری کرنے میں اس کی کل آمدنی ایک کروڑ اسی لاکھ بنتی ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ محمد سلیم کی مثال صرف تخمینے کی خاطر لی گئی ہے۔ ورنہ اتنے خوشحال عام عوام پاکستانی نہیں ہیں۔
اب دوسری جانب چلتے ہیں ۔ کرپشن کے اعداد کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں یہ بتایا گیا کہ چارسو باسٹھ ارب روپے کی بے ضابطگی سامنے آئی ہے۔ جو ساڑھے چار کھرب سے زیادہ کی رقم بنتی ہے۔ سمجھانے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ ایک کھرب میں سو ارب اور ایک ارب میں سو کروڑ ہوتے ہیں۔ سمجھانے کے لئےیہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ ایک دیانتدار پاکستانی کی ساری زندگی کی حلال آمدنی ایک کروڑ اسی لاکھ بنتی ہے۔ آف شور کمپنیوں کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے ان کا تخمینہ دو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ جب کہ پاکستان کی معیشت پر کل بیرونی قرضہ ستر ارب ڈالر کا ہے۔سمجھانے کے لئے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پنجاب میں تعلیم اور صحت کے لئے صرف اسی ارب روپے مخصوص ہیں۔ نیب کے صرف ایک کیس کے مطابق اس ملک میں تریسٹھ ارب روپے کی بجلی چوری کی گئی۔ ایک ماہر معاشیات نے بتایا کہ ایک خلیجی شہر جو پاکستان کے غیرقانونی پیسے کا سب سے بڑا مدفن ہے وہاں کی آدھی جائیداد کی ملکیت غریب پاکستانیوں کے نام ہے۔چھ دفعہ ہم ایمنسٹی ا سکیموں کے ذریعے اس سے بڑی بڑی غیرقانونی رقموں کو حلال کر چکے ہیں۔ سوئس اکائونٹس میں بے شمار پاکستانیوں کے اربوں ڈالر دفن ہیں۔ یہ پیسہ اس قدر بڑی تعداد میں ہے کہ اس سے کئی ممالک کا خزانہ بھرا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف کے کرپشن کے خاتمے کے سلسلے میں لازوال اقدامات کے نتیجے میںحالیہ برطرف شدہ جرنل عبید اللہ خٹک کے اثاثہ جات بھی اربوں میں بتائے جاتے ہیں۔ ایک بریگیڈئیر صاحب کے ذمے بھی تیرہ ارب روپے لگا ئے گئے ہیں۔ ایک جج صاحب کا نام بھی آتا ہے جو اربوں روپے کے اثاثے بنا چکے ہیں۔ شرجیل میمن کے گھر سے دو ارب روپے برآمد ہوتے ہیں۔ ایان علی پانچ لاکھ ڈالر کے اکیاسی غیر قانونی دورے کر چکی ہیں۔ مشتاق رئیسانی کے گھر سے ستر کروڑ نکلتے ہیں۔ کوئٹہ کی تزئین وا ٓرائش کے لئے دو ارب روپے کا بجٹ ملتا ہے جس سے صرف شاہرائوں پر گملے سجا دیئے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے گھپلے ، وزیروں کی کرپشن ، سرکاری اداروں میں جونکوں کی طرح چمٹے بد عنوان بیوروکریٹس کی مالی بدعنوانیوں کا کوئی حساب نہیں۔یاد رہے۔ یہ سار ے قصے زمانہ حال کے ہیںجب کہ اس ملک کے ساتھ یہ کھلواڑ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔چینل چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ ہر آف شور کمپنی غیر قانونی نہیں۔ پاناما لیکس میں سامنے آنے والے سب نام قومی مجرموں کے نہیں۔غیر ملک میں کاروبا رکرنا کوئی گناہ نہیں۔یہ بات بالکل د رست ہو گی ۔لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ سب آف شور کمپنیاں ، دبئی کے اکائونٹس اور سوئس بینکوں میں دفن رقوم حلال ہیں۔ یہ مان لینا چاہئے کہ ایسی رقومات زیادہ تر بین الاقوامی کانٹریکٹس میںسے کک بیک کے طور پر وصول کی گئی ہونگی۔ ٹیکس کو غیر قانونی طریقے سے بچایا گیا ہو گا۔دھونس اور دھاندلی سے قرضے معاف کروائے ہوں گے۔ایل پی جی کے گھپلے ہوں گے۔ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے قصے ہوں گے۔ رینٹل پاور کے ٹھیکوں کے کمیشن ہوں گے ۔تعمیراتی پروجیکٹس میں سے حصہ وصول کیا گیا ہوگا۔رشوت کے طور پر ہر ترقیاتی منصوبے میں سے لاکھوںڈالر وصول کئے گئے ہوں گے۔ خام مال میں خورد برد کی گئی ہو گی۔سڑکوں کی تعمیر میں دھوکے ہوئے ہوں گے۔ گھوسٹ اسکول ، کالج اور اسپتال بنے ہوں گے۔زکوۃکی رقم میں خورد برد ہوئی ہو گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم کس کی ہے۔؟ کون ہے اس کا مالک۔؟کہاں سے جمع ہوئی یہ دولت؟ ۔ وائٹ کالر جرائم کے اس خرابے کاکسی کو نہیں پتہ شاید یہ رقم معذور افراد کے ا سکولوں کی تعمیر کی ہو۔ شاید اس رقم سے نابینا بچوں کی تعلیم کا انتظام ہونا ہو۔ شاید اس رقم سے لڑکیوں کے اسکول بننے ہوں۔ شایداس رقم سے دور افتادہ گائوں میں سڑک بننی ہو۔ شاید اس رقم سے کئی اسپتال تعمیر ہونے ہوں۔ شاید اس رقم سے غریبوں کا مفت علاج ہونا ہو۔ شاید اس رقم سے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار ملنا ہو۔ شاید اس رقم سے کسانوں کی امداد مقصود ہو۔ شاید اس رقم سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے منصوبے بننے ہوں۔شایداس رقم سے غربت مٹانی ہو۔شاید اس رقم سے تھر میںپانی پہنچانا ہو۔ شایداس رقم سے صاف پانی کی کوئی اسکیم لگنی ہو۔ شاید اس رقم سے عدالتی نظام کو بہتر بنانا ہو۔ شاید اس رقم سے پولیس کی حالت بہتر بنانی ہو۔ شاید اس رقم سے لاکھوں ڈسپنسریاں کھلنی ہوں۔ شایداس رقم سے زچہ بچہ کی صحت پر اخراجات ہونے ہوں۔ شایداس رقم سے یونیورسٹیاں تعمیر ہونی ہوں۔ شاید اس رقم سے کارخانے لگنے ہوں۔یہ سب سرمایہ پاکستان کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ میرا ہے ، یہ سرمایہ آپ کا ہے ۔ یہ سرمایہ ہر محمد سلیم کا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے بہت اچھا کیا کہ کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ وزیراعظم نے بھی اچھا کیا کہ خود کو احتساب کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش کردیا۔ لیکن احتساب سب کا ہونا چاہئے۔ لوٹی ہوئی ہر پائی کا حساب ہونا چاہئے۔ صاف ستھرے لوگ احتساب کے عمل سے نتھر کر سامنے آنے چاہئیں اور مجرمان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سزا سے مراد ان افراد کو قید کرنا، کوڑے لگانا یا پھانسی دینانہیں۔ سزا صرف اتنی ہے کہ بس لوٹی ہوئی رقم اس ملک میں واپس آنی چاہئے۔ ہم زوال کی جس انتہا پر پہنچ چکے ہیں یہ عروج کی غمازی کرتا ہے۔ پاناما لیکس جیسی پستی کے مواقع قوموں کی زندگیوں میں کم ہی آتے ہیں۔ یہی موقع ہے اس نفی کو اثبات میں بدلنے کا۔ یقین مانئے اگر یہ ہماری لوٹی ہوئی رقم اس ملک میں واپس آجاتی ہے تو پاکستان دہائیوں میں نہیں برسوں میں ترقی یافتہ کہلائے گا۔ یہاں تک کہ اس ملک کا ہر فرد شکریہ۔ پاناما لیکس کے نعرے لگائے گا۔
تازہ ترین