• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سال، مہینے ، دن یعنی اعدادوشمار وغیرہ بالکل یاد نہیں رہتے اسی لئے برسوں پہلے یہ شعر لکھا تھا۔

لپٹا ہوا بدن سے یوں لفظوں کا جال تھا

ہندسوں کا کھیل کھیلتے رہنا محال تھا

مختصراً یہ کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ہم چند دوست اکثر ’’وی سی ہائوس ‘‘ یا ہمارے ’’بیلی پور ‘‘ والے گھر میں گپ شپ کیلئے اکٹھے ہوتے ۔ ایک شام ڈاکٹر مجاہد کا فون آیا کہ کل لنچ پر اکٹھے ہونا ہے ۔میں نے اسے معمول کی ’’کارروائی ‘‘ سمجھ کر نہ کچھ پوچھا نہ ڈاکٹر مجاہد نے کچھ بتایا۔اگلے روز میں جونہی وی سی ہائوس کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو شدید قسم کا جھٹکا سا لگا کیونکہ بالکل سامنے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان تشریف فرما تھے ۔ میں واپس پلٹنے ہی والا تھا کہ ان کی نظر پڑ گئی ۔تیزی سے اٹھے اور انتہائی گرمجوشی سے مجھے گلے لگایا اور پھر ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا کر مجھ سے محو کلام ہو گئے ۔یہاں تک کہ کسی دوست کو کہنا پڑا کہ ’’حسن صاحب ! آپ نے تو ڈاکٹر صاحب کو منوپولائز کر لیا ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’’میں نے نہیں، ڈاکٹر صاحب نے مجھے منوپلائز کر لیا ہے‘‘ طویل سیشن رہا اور میں نے ڈاکٹر صاحب کو انتہائی شفیق، مہذب، مہربان اور گرمجوش انسان پایا ۔ ان کا ادبی شعری ذوق بھی نہایت اعلیٰ تھا ۔اس ملاقات کے بعد ان سے عجیب سا محبت بھرا رشتہ قائم ہو گیا جو ان کے رخصت ہونے کے بعد بھی قائم ہے ۔ ان کی دی ہوئی کچھ کتابیں، کچھ خطوط آج بھی میرا اثاثہ ہیں وہ جتنے بڑے سائنس دان تھے اتنے ہی عظیم انسان بھی تھے ،بہت فراخدل، عالی ظرف انسان کیونکہ مجھے ان سے اس سلوک کی توقع نہیں تھی جس کا پس منظر یہ تھا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد جس طرح کا ’’عوامی ردعمل‘‘ بلکہ ’’جذباتی ردعمل‘‘ سامنے آیا ۔ اس پر میرا ردعمل ذرا مختلف تھا میرا کہنا یہ تھا کہ ایٹم بم کوئی ’’کستوری‘‘ یا ہماری ’’دریافت‘‘ اور ’’ایجاد‘‘ نہیں کیونکہ یہ تو دوسری جنگ عظیم میں قیام پاکستان سے بھی پہلے ہیرو شیما، ،ناگا ساکی پر استعمال بھی ہو چکا جو اوروں کا ’’کارنامہ ‘‘ ہے ، ہمارا نہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نامساعد ترین حالات میں پاکستان جیسے کم وسیلہ ملک کو اس ڈیٹرنٹ سے لیس کرکے ہندو ذہنیت سے اپنے ملک کو محفوظ کر دیا۔یہ ایک نصابی ، کتابی یعنی اکیڈیمک سی بات تھی جسے کوئی باشعور شخص جھٹلا ہی نہیں سکتا لیکن چند نیم خواندہ، احمق شہنشاہ

جذبات ٹائپ ’’مفکرین‘‘ نے اپنی تحریروں میں ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے میں نے ڈاکٹر خان صاحب کی شان میں کوئی گستاخی کر دی ہو۔ میں نے اس جہالت پر ری ایکٹ کیا کہ بھائی لوگو میں تو سائنس اور ٹیکنالوجی کو اہم اور اتم ترین کام سمجھتا ہوں اور ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم صدیوں سے اینٹرٹینرزتو پیدا کر رہے ہیں ،سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں بانجھ ہیں، اسی لئے عالم اسلام حریفوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس پس منظر کے ساتھ میرے ذہن میں یہ تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب بھی میرے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتے ہوں گے لیکن میرے لئے خوشگوار ترین حیرت کا مقام یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف میرے سٹانس کو سراہا بلکہ اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہی خطوط پر لوگوں کی تربیت کرنا بہت ضروری ہے ۔میرے نزدیک سائنس دان بھی صوفیا کے ہمسائے ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں ۔رہ گئے اس کے منفی پہلو تو لوگوں کا کیا ہے، وہ تو وطن سے محبت تا مذہب کا بھی غلط استعمال کر سکتے ہیں ۔ ڈاکو اور وطن کے محافظ کا ہتھیار ایک جیسا بھی ہو تو اس میں زمین وآسمان سے زیادہ فرق ہوتا ہے۔

مختصراً یہ کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب میں ایک سائنس دان اور صوفی جیسی سادگی اور معصومیت تھی ۔ذہین ہی نہیں عالی طرف بھی تھے۔ چند روز پہلے’’ جنگ‘‘ میں ان کا اک مختصر سا نوٹ پڑھ کے میں ان کی صحت کے بارے ریلیکس کر گیا تھا کہ ان کے انتقال کی خبر نے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اللہ پاک انہیں اعلیٰ ترین درجات سے نوازے کہ وہ واقعی ہم سب کے محسن تھے۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجائوں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین