• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کچھ خواب دیکھے۔ لیکن شعور جب غمِ ذات کی سطح سے بلند ہوکر غم کائنات میں ضم ہوتا ہے تو خواب دیکھنے کے لئے نیند کا ہونا ضروری نہیں رہتا۔ یورپین یونین اب 32ممالک پر مشتمل ایک بلاک ہے، دس نئے ممبرز قبرص، چیک ری پبلک، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، مالٹا، سلواکیہ اور سٹووینیا نے ای یو (یورپین یونین) میں شامل ہوکر اسے پینتالیس کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل اقتصادی اور سیاسی گروپ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک ایسا گروپ جس سے ابھی نہیں تو آنے والے وقت میں امریکہ جیسا ملک ضرور خوف زدہ رہے گا۔ اس بلاک کی ایک متحدہ شناخت تشکیل دی گئی ہے کہ ہر جغرافیہ کی اپنی شناخت ہوتی ہے اس کی ایک پارلیمنٹ ہے ایک آئین ہے اس پارلیمنٹ اور آئین کو اپنی موجودہ شکل میں آتے آتے تقریباً 65برس لگے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ایک خوبصورت خواب دیکھا تھا یورپ کو خوبصورت سے خوبصورت ترین بنانے کا۔ یہ اپریل 1951 کی بات ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی، لکسمبرگ، بلجیم اور پھولوں کے دیس ہالینڈ نے اسٹیل اور کوئلے کی مشترکہ مارکیٹ وجود میں لانے کے لئے یورپین کول اسٹیل کمیونٹی (ECSC) کی بنیاد رکھی، یہی بنیادی اینٹ مارچ 1957 میں معاہدہ روم کے تحت یورپین اکنامک کمیونٹی (EEC) بن گئی جس کا مقصد رفتہ رفتہ زرعی اور صنعتی مارکیٹ کو عالم وجود میں لانا تھا۔ جولائی 1967میں یہ EECاپنی ایک ایEکو خیرباد کہتے ہوئے صرف ای سی یعنی یورپین یونین رہ گئی۔ 1973میں ہمیشہ آخری ریل کا ڈبہ پکڑنے والے برطانیہ اور ڈنمارک و آئرلینڈ اس کے ممبر بن گئے۔ چھ سال کے بعد مارچ 1979 مشترکہ کرنسی کی تشکیل کیلئے پہلا قدم یورپین مانیٹری سسٹم اُٹھایا گیا \۔ دو سال بعد جنوری 1981 میں یونان یورپین کمیونٹی کا دسواں ممبر بن گیا۔ جنوری 2002 میں ای یو کےبارہ ممالک میں ’’یورو‘‘ کوکرنسی کے طور پر قبول کرلیا گیا۔جون 2004 میں یورپ کا سب سے اہم واقعہ اس کے انتخابات ہیں۔ یورپین یونین میں منعقدہ عام انتخابات میں رائے دہندگان کا رجحان انتہائی حیرت انگیز رہا۔ عوام نے برسراقتدار پارٹیوں کو تباہ کن شکست سے دوچار کردیا ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا حق استعمال نہ کرکے مزید حیرت انگیز رویہ کا اظہار کیا اور جن افراد نےا پنے اس حق کا استعمال کیا انہوں نےا پنی ان برسراقتدار حکومتوں کو سزا دی جنہوں نے عوام کی مرضی کے خلا ف عراق پر امریکی حملے کی تائید یا مدد کی تھی، علاوہ ازیں حکومتوں کی معاشی و سماجی پالیسیوں پر بھی عوام نے حکمرا نوں کے کان کھینچتے ہوئے مخالفانہ رائے کا اظہارکیا۔ جہاں تک کمیونسٹ ممالک کا تعلق ہے جنہوں نے یورپی یونین میں شرکت کی وہاں کے عوام نے ایسے رہنمائوں کو مسترد کردیا کہ ان ممالک میں بے روزگاری، سماجی مسائل، مہنگائی اور غربت نے کمیونسٹ حکومتیں ختم ہونے کے بعد اپنے پھن پھیلا رکھے ہیں مشرقی یورپ کے عوام اپنے اس غصے کا اظہار یورپین یونین پر کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض ایک ماہ کے بعد ہی مشرقی یورپ کے عوام نے یورپین یونین میں شرکت کی مخالفت شروع کردی تھی اس ناراضی کے اظہار کا سب سے بڑا ثبوت عام انتخابات میں حکمرانوں کے خلاف کھل کر برہمی کا مظاہرہ تھا۔ یورپی یونین میں ’’یوم مئی‘‘ کوشرکت کرنے والے کمیونسٹ ممالک نے مغربی یورپ کے ’’یورپی بھائی چارے‘‘ کے جذبے کو ٹھکرا دیا برطانیہ میں یوکے انڈیپنڈنس پارٹی نےاپنے ووٹوں میں حیرت انگیز طور پر 17فیصد اضافہ کیا۔ اس وقت کی برسراقتدار ٹونی بلیر کی لیبر پارٹی اور اپوزیشن ٹوری پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ IPپارٹی نے 9اضافی نشستیں حاصل کرلیں دوسری جانب اسکینڈے نیویا کے ممالک میں سویڈن میں نئی یورو سپٹک پارٹی نے حیرت ناک و بہترین انتخابی مظاہرہ کیا۔ پولینڈ جو یورپین یونین میں چند برس قبل شامل ہوا تھا یہاں کے برسراقتدار ڈیموکریٹ الائنس کو شکست ہوگئی۔ اسی طرح سابق کمیونسٹ ملک چیک جمہوریہ میں بھی برسراقتدار پارٹی کو انتخابی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ جمہوریہ چیک میں وزیراعظم دلادمیر اسپیڈلا کو اپوزیشن کی دائیں بازو کی پارٹیوں نے شکست دیدی۔ جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے اسپین کی نئی سوشلسٹ حکومت ان چند ایک برسراقتدار پارٹیوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے حریفوں کو پچھاڑ دیا تھا اس کے برعکس یونان میں قدامت پسند حاوی رہے۔

یورپی یونین کے ان 32ممالک کے اس بھائی چارے کے انتخابات کی ایک ’’خوبی‘‘ اور خصوصیت یہ رہی کہ عوام نے عراق پر امریکہ کے حملے کی تائید کرنے والی حکومتوں کو سزا دی وہیں عراق سے فوجیں واپس طلب کرنے والے ممالک کی حکومتوں کو کامیابی دلائی۔32یورپین یونین کی جملہ 750 نشستوں میں دائیں بازو کی پارٹیوں کو 247نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان انتخابات میں ’’عراقی تیل کی سیاست‘‘ کا مسئلہ عوام کے ذہنوں پر چھایا رہا اور ہالینڈ کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مزید 8ماہ تک اپنی افواج کو عراق میں رکھے گی۔

حرف آخر کے طور پر یہ بات قابل غور ہے کہ یورپی خطے میں آباد لوگوں نے مسائل کے حل کے لئے ہتھیاروں کے آپشن پر زور نہیں دیا یہ وقت ہےکہ سارک کے دو اہم ترین ممالک یعنی بھارت اور پاکستان اپنے تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کے لئے اور یورپین یونین کی طرز پر کوئی بلاک بنانے کے لئے مزید تاخیر نہ کریں۔

نقشہ اُٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے

اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہوگئی

تازہ ترین