• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے تو صدر پاکستان سید ممنون حسین اور پاکستانی عوام کو مبارکباد… عوام کو مبارکباد اس لئے کہ صدر مملکت خود عوام میں سے ہیں اور یوں بہت عرصے بعد یا شاید پہلی مرتبہ ”عوام“ کو صدرِ مملکت کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ سابق صدر رفیق تارڑ کا تعلق بھی ”اشرافیہ“ کے اس طبقے سے نہیں تھا جو صدیوں سے ہم پر حکومت کرتا چلا آ رہا ہے تاہم وہ اور ان کا سارا خاندان علاقے کے صاحب ثروت افراد میں شامل سمجھے جاتے رہے ہیں، ممنون حسین اوسط درجے کے بزنس مین ہیں ان دونوں میں ایک قدر مشترک یہ ہی ہے کہ مزاج کے فقیر واقع ہوئے ہیں، غرور اور تکبر قریب سے بھی نہیں گزرا۔ یہ دونوں شخصیات بے داغ کردار کی مالک ہیں۔ سازش کے قریب ہی نہیں پھٹکتے اور یوں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی عوام کو جناب رفیق تارڑ کے بعد سید ممنون حسین کی صورت میں ایک ایسا صدر دیا ہے جو ایوان صدر کے وقار میں اضافہ کرے گا اور بطور صدر مملکت ان کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے استعمال میں کبھی ڈنڈی نہیں مارے گا! اس لحاظ سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بہترین صدر انتخاب کیا! تاہم اس حوالے سے کچھ پیچیدگیاں بھی سامنے آئی ہیں جو سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے دائرہ کار میں آتی ہیں چنانچہ یہ موضوع میں انہی پر چھوڑتا ہوں۔ میری خوشی تو بس اتنی ہے کہ قوم کو ایک بہترین صدر ملا ہے۔ ان کے ساتھ جو دوسرے نام لئے جا رہے تھے، میری ان کے ساتھ بھی نیاز مندی ہے، وہ سب کے سب اس عہدے کے اہل تھے، تاہم قرعہٴ فال تو بہرحال کسی ایک کے نام ہی نکلنا تھا، البتہ ایک ضروری بات کہنے کی یہ ہے کہ ”محرومین“ کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں ان کی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں ملا، سیاست صرف قربانی نہیں صلہ بھی مانگتی ہے اور ان کا حق ان سب لوگوں پر فائق ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ برس کھل کر عیش کی اور ابھی تک عیش کر رہے ہیں۔ امید ہے مسلم لیگی قیادت بہت سنجیدگی سے ان مسائل کا حل تلاش کرے گی، کیونکہ جو لاوا پرائیویٹ محفلوں میں پک رہا ہے، وہ کسی وقت پھٹ بھی سکتا ہے!
اور اب دوبارہ آ جاتے ہیں صدر پاکستان سید ممنون حسین کی طرف! میری ان سے تین چار ملاقاتیں ہوئی ہیں ایک دفعہ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور کی نمازِ جنازہ میں، جس میں وہ بھی دوسرے عوام کے ساتھ دھکے کھاتے نظر آئے دوسری اور تیسری دفعہ مسلم لیگ کی ایک تقریب میں اور چوتھی مرتبہ تو انہوں نے مجھے حیران کر دیا جب میرے چھوٹے بیٹے علی قاسمی کی بارات جو کراچی گئی میں وہ شریک ہوئے جس کا دعوت نامہ میں نے انہیں رسمی طور پر بذریعہ ڈاک بھیجا تھا۔ وہ جب بھی ملے، ان کے چہرے کی مسکراہٹ بھی ساتھ ملی، سید صاحب پرانی تہذیب کی نمائندہ نشانی ہیں۔ خدا کرے ان کا دورِ صدارت پاکستان کے لئے خیر و برکت کا باعث بنے۔
باقی رہی برادر مکرم چودھری محمد سرور کی پنجاب کی گورنری تو میں اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہوں جس کی تائید ہر طرف سے ہوئی اب ان کا نوٹیفیکیشن ہو چکا ہے اور یوں وہ 5 اگست کو گورنر پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، پھر وہ ہوں گے اور گورنر ہاؤس کے قدیم در و دیوار جس کی دیواروں پر آویزاں انگریز گورنروں کی روحیں انہیں دیکھ کر خوش ہوں گی کہ ایک بار پھر ایک ”ولایتی “ گورنر بن کر آ گیا ہے اور یوں ان گوروں کی تنہائی دور ہو جائے گی کہا جاتا ہے کہ چودھری صاحب نے اپنی دہری شہرت ترک کر دی ہے میرے بہت پیارے دوست حسن نثار نے لکھا کہ دہری شہریت دہری ولدیت کی طرح ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا میرے نزدیک دہری شہریت دراصل ”دوغلی شہریت“ ہے، خدا کا شکر ہے کہ چودھری صاحب نے پاکستان کے مفاد میں اور گورنر بننے کے لئے اپنی دہری شہریت ترک کر دی ہے، تاہم میں نے سنا ہے کہ معمولی سی فیس ادا کر کے کسی بھی وقت یہ ”اعزاز“ دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چودھری صاحب! آئی ایم سوری، بس آپ کے بارے میں میری یہ آخری تحریر ہے، تاہم یہ وعدہ نہیں، صرف خواہش کا اظہار ہے!
اور اب بیان ایک انتہائی دلچسپ صورتحال کا، یہ دراصل میری انا کی تسکین کا مسئلہ ہے اور دوستوں کی بے پایاں محبت کا! گزشتہ دنوں جب صدر اور گورنر پنجاب کے حوالے سے بحث چل رہی تھی برادرام سلیم صافی نے ایک زوردار کالم ممنون حسین صاحب کو صدر اور چودھری صاحب کو گورنر بنانے کی خبروں کے حوالے سے لکھا، ماضی میں ترکی کے ایک ڈرامے ”عشق ممنوع“ کی پاکستان میں بہت دھوم مچی تھی، سلیم صافی نے اس میں تحریف کر کے ”عشق ممنون“ کے عنوان سے کالم لکھ مارا جس میں سید صاحب کے صدر بننے کی دلائل کے ساتھ مخالفت کی تھی۔ میں یہ کالم پڑھتے ہوئے جب ان سطور پر پہنچا جو گورنر پنجاب کے حوالے سے تھیں، تو ”اس خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے“ والی کیفیت طاری ہو گئی۔ صافی نے لکھا تھا ”جن لوگوں کا اپنے صوبہ پنجاب میں گورنر کے منصب کے لئے سردار ذوالفقار کھوسہ، تہمینہ دولتانہ اور عطاء الحق قاسمی جیسے لوگوں کی بجائے نظر چودھری سرور پر پڑتی ہے۔ ان سے کیا توقع رکھیں“ اور اس وقت تو مجھ پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہو گئی جب ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی اپنے کالم میں کچھ اسی طرح کی بات لکھی کہ پیر عطاء الحق قاسمی ایسے صاحب علم اور دانشور کو گورنر پنجاب بنانے میں کیا امر مانع تھا۔ صحافیوں اور سیاستدانوں کے علاوہ میری ادبی برادری کے سرکردہ افراد مثلاً منصور آفاق، اجمل نیازی، سعد اللہ شاہ، اختر شمار، میم سین بٹ اور کتنے ہی دوسرے کالم نگاروں نے میری ”گورنری“ پر ”مہر تصدیق“ ثبت کی۔ میں یہ سب کچھ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ میری عمر بھر کی کمائی یہی وہ اعتبار ہے جس کا اظہار دوستوں کی طرف سے ہوا اور یہ وہ اعزاز ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ کوئی بھی اہل قلم اور کوئی بھی صاحب اقتدار کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو دلوں میں پائی جانے والی محبت، عزت اور قدر افزائی میں کہیں کوئی فرق نظر نہیں آتا صاحب اقتدار کی عزت اس کے منصب اور اہل قلم کی عزت اس کے قلم کی حرمت کی وجہ سے ہوتی ہے اور جب صاحبان اقتدار، اقتدار سے رخصت ہوتے ہیں تو #
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
کی مجسم تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ میرے لئے گورنری یا کوئی دوسرا منصب پر کاہ کی وقعت نہیں رکھتا لیکن دوستوں نے جس محبت اور میری کریڈیبیلٹی کے حوالے سے مجھ پر جس اعتماد کا اظہار کیا وہ میری زندگی بھر کی کمائی ہے۔
تازہ ترین