• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری قومی خود مختاری بھی قومی مفاد کی طرح ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کا مضمون ہے۔ ہم نے قومی خود مختاری کے واجب تکریم آئینی اور سیاسی تصور کو اس تواتر سے ”مٹی پاؤ“ نسخے میں استعمال کیا ہے کہ مٹی کے اس ڈھیر سے قوم کا جسد اجتماعی نکالنا بھی بھول گئے ہیں۔ 29 جولائی کی رات ڈیرہ اسماعیل خان کی مرکزی جیل پر حملہ ہوا۔نصف شب کے قریب سو سے زائد مسلح دہشت گرد خیبر پختونخوا کی محفوظ ترین جیل پر حملہ آور ہوئے اور کسی خاص مزاحمت کا سامنا کیے بغیر ڈھائی سو کے قریب عسکریت پسندوں کو چھڑا کر لے گئے جن میں تیس خطرناک ترین دہشت گرد بھی شامل تھے۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اس خوفناک واقعہ میں بارہ افراد ہلاک ہوئے ،چار پولیس اہلکار تھے جبکہ مرنے والوں میں سے کم از کم چھ ایسے قیدی تھے جن کا جرم عقیدے کے اعتبار سے ایک فرقے سے تعلق ہونا تھا۔ حملہ آور ایک خاتون پولیس اہلکار سمیت چھ قیدی عورتوں کوبھی اپنے ہمراہ لے جانے میں کامیاب ہو گئے ۔ لیڈی کانسٹیبل گلاب بی بی بہرصورت واپس آ گئی ہے۔ جیل کو ریاست کی عملداری اور قانون کی بالا دستی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ جیلوں کی تعمیر اور انتظام کاری میں بنیادی مفروضہ قیدیوں کو فرار ہونے سے باز رکھنا ہوتا ہے ۔باہر سے حملہ کر کے جیل کے حفاظتی بندوبست کو درہم برہم کرنا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جسے ریاست کے خلاف برسرپیکار عسکریت پسندوں کی حکمت عملی کا ایک اہم مرحلہ سمجھنا چاہیے۔ اپریل 2012ء میں بنوں جیل پر بھی اسی نوعیت کا حملہ کیا گیا تھا جس میں چار سو عسکریت پسندفرار ہوگئے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں قیدیوں کی کل تعداد پانچ ہزار تھی جو بدستور جیل میں موجود رہے۔ گویا اس واقعہ کو جیل کے روزمرہ بندوبست میں کسی بدیہی کمزوری کا شاخسانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ سادہ سی بات ہے کہ حکومت اور ریاست کے مسلح دشمنوں نے حملہ کرکے اپنے ساتھی رہا کروا لیے۔حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ انہوں نے راکٹ گرنیڈ سے حملہ کر کے علاقے میں بجلی کی رو منقطع کر دی۔ انہوں نے اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینکیں پہن رکھی تھیں۔ وہ لاؤڈ اسپیکروں کی مد د سے نام لے لے کر اپنے ساتھیوں کو باہر بلاتے رہے۔ انہوں نے قریبی مکانوں اور ایک اسپتال کی چھت پر مورچے بنا کر عام شہریوں کو یرغمال بنائے رکھا تاکہ جیل کے عملے کو پہنچنے والی کمک کو روکا جا سکے۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ 150 طالبان حملہ آوروں میں 7خودکش حملہ آور شامل تھے اور جو کامیاب کارروائی کے ذریعے اہم طالبان رہنماؤں سمیت 300 عسکریت پسندوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے مختلف خبر رساں ذرائع کو بتایا ہے کہ حملہ آوروں میں 18 اسپیشل کمانڈو بھی شامل تھے ۔ عدنان رشید کی رہنمائی میں چھ ماہ تک منصوبہ بندی کی گئی جس پر ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ حملے میں پندرہ گاڑیاں اور دس موٹر سائیکلیں استعمال کی گئیں۔ گاڑیوں میں سوار حملہ آور آسانی سے ایک کے بعد دوسری چیک پوسٹ عبور کرتے رہے۔ حملے کے ایک گھنٹہ اور بیس منٹ بعد رہا شدہ قیدیوں سمیت تمام حملہ آور قبائلی علاقے میں محفوظ مقامات پر پہنچ چکے تھے جہاں بھاری فائرنگ کے ذریعے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔
اپریل 2012ء میں بنوں جیل پر حملے اور جولائی 2013 ء میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ صوبے کی انتظامیہ کے تمام ذمہ دار حلقوں کو اس حملے کے بارے میں تفصیلی اطلاعات مل چکی تھیں۔ صوبائی گورنر کو بھی مطلع کیا جا چکا تھا۔27جولائی کو ایک خفیہ ادارے نے ڈیرہ جیل پر حملے کی اطلاع دی۔ اس ضمن میں ٹیلی فون پر سنی جانے والی گفتگو کے مفصل اقتباسات بھی شامل تھے۔ 28جولائی کو وفاقی محکمہ داخلہ کی طرف سے اس حملے کی اطلاع دی گئی جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ حملہ آور جیل پر تین اطراف سے یلغار کریں گے۔ 29 جولائی کو کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان نے ایک اعلیٰ اجلاس میں انتظامات کا جائزہ لے کر حملے کی پیش بندی کا منصوبہ تیار کیا ۔ محکمہ جیل کے ایک سو اہلکاروں کے علاوہ فرنٹیئر ریزرو فورس کے 75 اہلکار تعینات کیے گئے۔ بکتر بند گاڑیوں میں پولیس کے ایلیٹ دستے بھیجے گئے۔ لیکن ہوا یہ کہ حملہ آوروں نے جیسے ہی پہلی بکتر بند گاڑی اڑا کر دو پولیس اہلکار شہید کیے ، تمام انتظام درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ طالبان کو جیل کی دیوار یا بیرونی دروازہ تک توڑنے کی زحمت اٹھانا نہیں پڑی۔ جیل کے عملے نے خود ہی دروازہ کھول دیا اور صوبائی وزیر اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکار اردگرد کی گلیوں بلکہ نالیوں میں جا چھپے۔ سینکڑوں حملہ آوروں کے ہجوم پر ایک بھی گولی نہیں چلائی جا سکی اور ایک حملہ آور بھی ہلاک نہیں کیا جا سکا۔ چنانچہ صوبائی وزیراعلیٰ کا یہ کہنا گمراہ کن ہے کہ یہ حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی تھا۔ یہ انٹیلی جنس کی نہیں، تدبیراتی ناکامی ہے۔
تدبیراتی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو حملے کی اطلاع موجود تھی لیکن ریاست انتظامی طور پر اس حملے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی چھاؤنی شہر کی جیل سے سات منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔ ضلعی پولیس آفیسر نے بریگیڈ کمانڈر سے رابطہ کیا جس پر موٴثر ردعمل نہیں دیا گیا۔ وزیر اطلاعات کا پولیس کو بزدلی کا طعنہ دینا بہت آسان ہے۔ یہ وہی پولیس ہے جس کے رہنماؤں بشمول سپوت غیور نے بہادری سے جان دی۔ پختونخوا پولیس میں ایس پی رینک کے آفیسرز کے سر کاٹ کر کھمبوں سے لٹکائے گئے۔ خیبرپختونخوا کی پولیس بزدل نہیں ہے۔ وہ سیاسی قیادت نااہل اور بزدل ہے جو طالبان کی گولی سے ڈر کر مذاکرات کی بجھارتیں سناتی ہے۔ جس کے رہنما وزیرستان تک لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان سے واپس تشریف لے آتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر اعلان کرتے ہیں کہ ان میں فلاں فلاں جماعت کے مقابلے کی ہمت نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پولیس کو عام مجرموں کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔طالبان باقاعدہ جنگ کا تجربہ رکھنے والے منظم لڑاکا فوج ہیں جو اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں اور یکسوئی کے ساتھ اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی اہلکاروں کو، خواہ ان کا تعلق پولیس سے ہو یا فوج سے، بار بار مبہم احکامات دیے جاتے ہیں۔ ریاست کی عملداری ڈرون حملوں کے خلاف بیانات سے قائم نہیں ہو گی۔ ریاست اور قانون کی عملداری کی اکائی ریاست کے ادنیٰ ترین اہلکار کی موٴثر کارکردگی ہے۔ پولیس کا پیدل سپاہی، ڈاکیہ اوربجلی کا میٹر ریڈر اعلیٰ ترین ریاستی اختیارات کے زمینی استعارے ہیں۔ اگر پولیس کا پیدل سپاہی ریاستی عملداری کی موٴثر نمائندگی سے قاصر ہے تو وزیراعلیٰ یا وزیر داخلہ کے جگہ جگہ پہنچ کر بے معنی اعلانات کرنا بھی ریاستی عملداری قائم نہیں کر سکتا۔ بوسیدہ اسلحے سے لیس اور ازکار رفتہ تربیت رکھنے والے پولیس اہلکاروں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے جدید ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کریں گے جن کے بارے میں سیاسی قیادت ایک کل جماعتی کانفرنس پر بھی متفق نہیں ہو سکتی۔ جن کے حامی اعلیٰ ترین ریاستی اداروں ، سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ میں سرگرم ہیں ۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ پاکستانی ریاست کی خود مختاری پر خوفناک حملہ ہے ۔ اس کے ردعمل میں درجن بھر پولیس اہلکاروں کو معطل یا برطرف کرنا کافی نہیں۔ سیاسی قیادت کو سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اب یہ کہنے سے کچھ حاصل نہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے کیونکہ امریکی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد حسب معمول واپس جا رہے ہیں۔ یہ جنگ اب پاکستان کے رہنے والوں ، ہمارے ریاستی اداروں اور سب سے بڑھ کر ہماری سیاسی قیادت کو لڑنا ہو گی۔
تازہ ترین