• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازوؤں پہ نگاہ کر
جو غرور تھا وہ غرور ہے
عمران خان کو سپریم کورٹ سے توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا اور پھر الیکٹرونک میڈیا پر ٹکر پڑھے کہ وہ عدالت سے معافی نہیں مانگیں گے اور اپنا دفاع کریں گے۔ یہ دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے احمد فراز کی نظم کا یہ قطعہ یاد آگیا۔ جمعہ کے روز عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی ہے۔ اس کالم کے چھپنے تک اس معاملے میں مزید پیش رفت ہوچکی ہوگی۔ فی الحال اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ معاملہ کل صبح ہی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ قانون کے شعبے سے متعلق لوگ اور عوام اس سارے کیس کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے ایک نوجوان بیرسٹر بابر ستار نے بھی ایک انگریزی روزنامے میں ایک مضمون سپریم کورٹ کے بارے میں لکھ دیا جسے کامران خان نے اپنے پروگرام میں انگریزی سے ترجمہ کرکے اردو میں سنایا اور لکھا ہوا بھی دکھایا۔ اس سے اس مضمون کی اور مضمون نگار کی اہمیت اور بڑھ گئی اور جس کسی نے نہیں پڑھا تھا اس نے بھی پرانا اخبار منگوا کر نہ صرف پڑھا بلکہ سنبھال کر بھی رکھ لیا۔ صدارتی انتخابات میں بغیر نوٹس کے تاریخ کی تبدیلی کے بعد یہ تمام نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئی ہے اور کچھ لوگوں کے پرانے زخم بھی تازہ ہوگئے ہیں۔ اس آڑ میں وہ اپنے پرانے اسکور سیٹل کرنے کے چکر میں ہیں مگر فی الحال اسکور سیٹل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ میچ برابر کا نہیں۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں بے شمار میچ جیتے ہیں اور ورلڈ کپ بھی جیتا ہے مگر یہ قانون کا میدان ہے۔ احمد فراز نے حبیب جالب کیلئے لکھا تھا ان کی نظم کے دو اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں…
کب تک درد کے تحفے بانٹو خون جگر سوغات کرو
”جالب ھن گل مک گئی اے“، ھن جاں نوں ہی خیرات کرو
اے بے زور پیارے تم سے کس نے کہاکہ یہ جنگ لڑو
شاہوں کو شہہ دیتے دیتے اپنی بازی مات کرو
صدارتی انتخابات اپنی تمام رسوائیوں کے بعد منعقد ہوگئے اور نئے صدر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ سادہ طبیعت کے نیک اور تعلیم یافتہ آدمی ہیں۔ صدر کا کردار تو غیرسیاسی ہوتا ہے اور ممنون صاحب کی شخصیت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں غیر سیاسی طور پر خوش اسلوبی سے نبھا لیں گے۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ ان کی شرافت اور سنجیدگی کی تعریف کرتے ہیں جو کم جانتے ہیں وہ صرف ان کے دہی بڑوں اور چاٹ کی تعریف کرتے ہیں۔ عزت، شہرت اور اقتدار اللہ کی طرف سے ملتا ہے ان کے مقدر میں تھا سو انہیں مل گیا۔ بہت بڑے بڑے امیدواروں کو منہ کی کھانی پڑی۔ ”جو پیا بھائے وہی سہاگن“ قرعہ ممنون صاحب کے نام کھلا اور وہ چشم زدن میں صدر پاکستان منتخب ہوگئے اور میاں صاحب انہیں منتخب کروا کر براستہ کراچی، سعودی عرب کے سالانہ پروگرام پر آخری عشرہ گزارنے کیلئے روانہ ہوگئے۔ عمران خان بھی چوری چھپے جان کیری سے مل لئے۔ سب ملنے والوں نے اپنے نمبر بنانے کیلئے باہر آکر یہی بیان دیا کہ وہ ڈرون حملوں کی بابت بات کرکے آئے ہیں۔ اس موقع پر مجھے ایک پٹھان کا لطیفہ یاد آیا مگر حد ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔ بہت دوستوں کو یہ لطیفہ یاد آتا ہے اور مجھے جو ملیں گے میں انہیں سنادوں گا۔ ہمارے رہنماؤں کے ڈرون حملوں پر باہر آکر دئیے گئے بیانوں سے ملتا جلتا لطیفہ ہے۔ اب تو افسوس یہ ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں میں جرأتمند باکردار لوگوں کا فقدان ہے اور وہ عوام کے سامنے سچی بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ 80ء میں جب حبیب جالب کو کراچی پریس کلب کی لائف ممبر شپ کیلئے مدعو کیا گیا اور انہوں نے مجاہد بریلوی کی فرمائش پر اپنی تارہ مشہور نظم لکھی اور پڑھ کر سنائی…
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گوہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
اے دیدہ ورد اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
خیر یہ سب سیاسی باتیں ہیں۔ عوام اس وقت رمضان کے آخری عشرے کی عبادات میں مشغول ہیں۔ کہیں تراویح کے قیام الیل کے نوافل ادا ہورہے ہیں اور کہیں صلٰوة تسبیح۔ ہر طرف انوار و تجلیات کی محفلیں برپا ہیں اور قوم عبادت الہٰی سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ غریب آدمی عبادت کا مزہ تو لے رہا ہے مگر ساتھ ساتھ مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے۔ عید کی آمد ہے اور ہر شخص نے حسب توفیق عید کو منانا ہے۔ کم آمدنی والے ایماندار لوگوں کیلئے یہ انتہائی ذہنی کشمکش کے دن ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کریں۔ انسان اپنی خواہشات پر تو قابو پا سکتا ہے اور انہیں وقتی طور پر دبا بھی لیتا ہے مگر ان معصوم بچوں کا کیا کرے جن کی تمام تر خواہشات اور خوشیوں کا مرکز ان کا والد ہوتا ہے اور وہ اسی کو دنیا کا سب سے بڑا آدمی سمجھتے ہیں مگر والد ان بچوں کو کیسے سمجھائے کہ اس کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے نیک اور شریف غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ عید کی آمد سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ عید جہاں زمانے بھر میں خوشیاں بکھیرتی ہے وہاں کچھ لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ اسی طرح کراچی کے رہنے والے وہ لوگ جن کے گھر کے افراد کو نامعلوم قاتل کی نامعلوم سمت سے آنے والی اندھی گولی نے لقمہ اجل بنا دیا۔ عید کے موقع پر اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال ہیں اور خوشی کے موقع پر ان کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ ان مقتولین کے بچوں کیلئے نئے کپڑے لانے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ جن نوجوان بیواؤں کا کمانے والا منوں مٹی کے نیچے سو گیا ہے عید ان کے آنگن میں بھی آتی ہے۔ آئیے عید کے دن ان سب دکھی، غریب اور سفید پوش لوگوں کو اپنی خوشیوں میں اس طرح خاموشی سے شامل کریں کہ ان کو اپنی محرومیوں کو احساس نہ ہو۔ آئیے ان کے غموں کا مداوا کریں اور خود بھی عید اس سادگی سے منائیں کہ کم وسائل والے لوگوں کو اپنے وسائل کی کمی کا احساس نہ ہو۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ اپنی تقاریر اور بیانات میں معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مدنظر رکھیں جن کے آنگن میں عید کا چاند ان کی معاشی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کیلئے اترتا ہے۔ یہاں مرزا غالب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں جو حسب حال ہیں۔
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے حبیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے
تازہ ترین