• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 

قارئین کرام! جاری عنوان پر ’’آئین نو‘‘ کی پہلی قسط میں واضح کیا گیا تھا کہ صدارتی الیکشن 1965 (ایوب خان بمقابلہ فاطمہ جناح) کے مشرقی پاکستان اور کراچی و حیدر آباد میں سخت متنازع ہونے کے دوران ہی ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی عہد کے زوال کی آمد بھانپ لی تھی۔ انہوں نے بعد از ایوب خان، اپنی نئی سیاسی راہ بارے سوچنا شروع کردیا تھا۔ پاکستان کے اس تاریخی مرحلے کو زیربحث لاتے، (زبانی یا تحریری) یہ حوالہ اور تبصرہ عام ہے کہ بھٹو صاحب نے بخوبی اندازہ لگا لیاتھا کہ کنٹرولڈ ڈیمو کریٹک رجیم، جس کے وہ سرگرم وفاقی وزیر رہے، کی رخصتی کےبعد دستورِ بے نور نہیں مانا جائے گا، یہ بھی واضح تھا کہ ان کے اپنے تئیں آمرانہ عہد کے لپٹنے کے بعد انہوں نے تبدیل سیاسی منظر کے اک نئے رنگ روپ سے قومی سیاست میں آنا ہی نہیں، چھانا بھی ہے۔ وہ ایوبی عہد کے اختتامی مرحلے میں اس سے الگ ہو کر مغربی پاکستان کی حد تک تو چھانے لگے اور الیکشن... 70 تک حقیقی عوامی سیاسی رہنما کے طور پر چھا گئے۔ آخر کیسے؟

پاکستان کے ایٹمی پاکستان بننے کی تاریخ دلچسپ ترین ہی نہیں نئی نسل مڈ ایج کے پاکستانیوں کے لئے اس سے واقفیت ہماری علمی قومی ضرورت ہے۔ خصوصاًاسی ایج گروپ کے ہسٹری اور سکیورٹی کے محققین اور پی ایچ ڈی اسکالرز کے لئے توتاریخ پاکستان کےاس مرحلے کے حقائق سے مکمل واقفیت لازم ہے اور ان پر پیشہ ورانہ اور علمی قرض بھی کہ وہ پائے جانے والے کچھ ابہام کو دور کرکے حقائق پر مبنی تاریخ کو درست اور ریکارڈ کریں۔ یہ تاریخ ہم پر اور آنے والی نسل پر واضح کرتی رہے گی کہ پاکستان، ایٹمی پاکستان کیسے بنا؟ بغیر کسی سیاسی جماعت و رہنما کے ارادے و ایجنڈے کے، یورپی لیبارٹری میں کام کرنے والے ایک 36 سالہ میٹرالوجیکل انجینئر کو حاصل ہونے والی کمال نتیجہ خیز عمل مسلسل میں ڈھل جانے والی بیش بہا علمی معلومات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تناظر میں، اس میں پیدا ہونے والی پاکستان کی سلامتی کی لاحق فکر کس طرح سیاسی عدم استحکام، کمزور اقتصادی حالت کے حامل ٹوٹے پاکستانیوں کے آنے والے سخت متنازع سیاسی رہنمائوں کے اٹل ارادوں میں تبدیل ہو کر قومی عزم صمیم بنی۔ اس کو مددِ خدا کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ جواں سال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی انٹر ڈسپلینری اپروچ پر بیس کرتی ہوئی بلند درجے کی علمی ذہانت اور پاکستان کی سلامتی کا گہرا احساس تھا، جس نے باقیماندہ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی لیڈر کو خط لکھ کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانےکے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ یاد رہے کہ بھٹو صاحب کا ایوب خان کے خلاف ملک گیر عوامی جمہوری تحریک میں مغربی پاکستان کی حد تک کردار الگ اینٹ کی مسجد بنانے والے مقبول لیڈر کا تھا ( یہ ہی کردار مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کا تھا) آمریت کی طویل معاونت کا پس منظر ہونے کے باوجود بھٹو کا یکدم عوامی اور مقبول بن جانا، ان کے جنگ ستمبر میں بھارت کے خلاف جارحانہ سفارتی سیاسی کردار، اس سے قبل ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ (مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے) کی تیاری میں (غیر مصدقہ) کردار اور پھر معاہدہ تاشقند پر بطور وزیر خارجہ صدر ایوب خان سے شدید اختلاف سے عبارت ہے۔ اس حوالے سے عوام الناس میں بغیر کسی واضح اعلان کے پاکستان کے خلاف معاہدے میں بہت کچھ ہو جانے کے ’’رازوں‘‘ کا ایسا تجسس پیدا کیا کہ اس پربھٹو کی نئی سیاسی دکان، بھارت کی شکست اور پاکستان کے 5 گنا بڑے دشمن پر فتح سے سرشار عوام و خواص کے جذبات کی ترجمانی کا مرکز بن گئی۔ حالانکہ نہ انہوں نے معاہدے کی مخالفت میں لاجک پیش کی اور نہ کبھی معاہدے کے پوشیدہ ’’رازوں‘‘ کو کھولا ( جو حقیقت میں تھے ہی نہیں) لیکن راز کھولنے کے شعبدے پر انہوں نے بڑے بڑے سیاسی اجتماعات خصوصاً پنجاب میں کئے۔ ساتھ ہی ’’22سرمایہ دار ملک کھا گئے‘‘ اور اس کے بعد لاہور میڈ ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کا پراثر بیانیہ بھٹو کو دیکھتے دیکھتے عوامی سیاست کے بام عروج پر لے گیا۔ سیکورٹی کونسل میں ان کی بھارت مخالف جذباتی تقریروں کا بھی اپنا رنگ اور پاکستانیوں میں اثر تھا۔ گویا، وہ جنگ ستمبر کےسیاسی ہیرو سے عوامی بھی بنے۔ اس میں بنیادی کردار لاہور کے سوشلسٹ دانشوروں کی فن کاری کا تھا۔ جنہوں نے جاگیردارانہ خاندانی اور آمریت کے معاون سیاسی پس منظر کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ بھٹو کی تیزی سے ہوئی امریکی مخالفت، لبرل پوسچر، اور جنگی سیاسی ہیرو کی حیثیت کو اپنی نظریاتی سیاست کے لئے کیش کرایا جائے۔ ان کا یہ تیر نشانے پر لگا۔(جاری ہے)

تازہ ترین