• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چشم بددور… لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی ڈیٹ نہیں، سال ضرور اناؤنس کر دیا گیا ہے۔ 2017ء میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا، یعنی ادھر ان کی ٹرم ختم ہو رہی ہو گی ادھر لوڈشیڈنگ ختم ہو رہی ہو گی“… ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“اصل کہانی صرف اتنی ہے کہ کسی بھی صورت میں کسی بھی قیمت پر ٹرم ٹپانی ہے اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر جھوٹے وعدے کر کے الیکشن جیتا جا سکتا ہے تو چند اور جھوٹی تاریخیں دے کر ٹرم بھی کیوں پوری نہیں ہو سکتی لیکن میری چھٹی حس بتا رہی ہے کہ ایسا ہو گا نہیں کیونکہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اور خدا کے گھر میں دیر کا سنا ہے اندھیر کا نہیں۔ رسی دراز ہے لیکن لامحدود نہیں۔
اندھیر نگری ہے اور یہ اندھیر نگری صرف اندھیرے کے حوالہ سے نہیں کہ مہنگائی بھی اندھا دھند ہے، عید پر عوام کیلئے اس سے بڑا تحفہ کیا ہو سکتا ہے کہ پٹرول 2.73، ڈیزل 3 اور مٹی کا تیل 4.99 روپے فی لیٹر کے حساب سے مہنگا اور غیور و باشعور مزید سستے ہو گئے۔ یہ کہنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ جب پٹرولیم مصنوعات کو ضربیں لگتی ہیں تو ہر شے ضربیں کھا جاتی ہے۔زرداری یاد آئے گا اور پرویز مشرف اس سے بھی زیادہ یاد آئے گا، نندی پور سے لے کر انرجی سیور اور کاروں تک کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں کہ نگوڑا، مرن جوگا، بی جمالو قسم کا سوشل میڈیا بہت ہی بدتمیز اور غیر سوشل ہے۔ خاص طور پر عمران خان کے تحریکئے تواڑتی چڑیا کے پر گنتے ہیں اور پرندوں کے نیچے سے انڈے بھی اس طرح نکال لیتے ہیں کہ خود پرندے کو پتہ نہیں چلتا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کا تو جو لیول ہے سو ہے لیکن اس پارٹی کے پڑھے لکھے سپورٹرز واقعی بے حد چوکنے باخبر اور لاجواب ہیں۔
بات ہو تحریک انصاف کی اور عمران خان کا ذکر نہ ہو تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ ”توہین عدالت“ کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے لیکن اس ملک میں ”توہین عوام“ کا جو کاروبار تسلسل سے جاری ہے، اس کا بھی کوئی جھوٹا سچا بندوبست تو ہونا چاہئے یا نہیں؟ اس ملک میں ”کنٹی نیوٹی“ نام کی کوئی شے نہیں۔ جو بجوباندر آتا ہے اپنے ہی چمڑے کے سکے ساتھ لاتا اور چلاتا ہے لیکن صرف ایک ایریا میں ”کنٹی نیوٹی“ قائم و دائم ہے اور وہ ہے ”توہین عوام“۔ جس کا جی چاہے تھوک کے بھاؤ عوام کی توہین و تذلیل کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، جس VVIP کھونٹے کو دیکھوکوئی نہ کوئی ”مقدس گائے“ بندھی ہے ”مقدس بچھڑا“ کھڑا ہے۔ ”مافیاز“ تک مقدس ہیں لیکن عوام کا کوئی مقام نہیں، یہ کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر اور بے حیثیت ہیں، اشرافیہ کے پالتو جانور اور بے غیرت فالتو چمچے بھی عام آدمی سے کروڑوں گنا زیادہ برتر و محترم ہیں لیکن شاید یہ ساری صورت حال عوام کے اپنے ہی گناہوں کی سزا ہے۔
بھیڑیں اگر اپنی ”نمائندگی“ بھیڑیوں کو سونپ دیں گی تو ان کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہئے جو ہو رہا ہے۔ اس پر ہزار لعنت اور لاکھ پھٹکار جو خود کو برباد کرنے والوں کو آباد کرنے کیلئے دھمالیں ڈالتا اور نعرے مارتا پھرے، جس کے پیٹ میں روٹی، جسم پر ڈھنگ کا کپڑا اور پاؤں میں جوتا نہیں… وہ کسی صنعت کار یا جاگیردار کا سیڑھی بنے تو اسے اسی طرح سڑنا گلنا چاہئے، لیکن میں بدنصیب، بدبخت پھر ان کا نوحہ گر تو سچ یہ کہ کبھی کبھی خود اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے اور جی چاہتا ہے خود اپنے ٹکڑے کر کے کسی گٹر میں ڈال دوں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ بے قصور ہیں، ان سے سچ جھوٹ، صحیح غلط، منفی مثبت، جائز ناجائز، خوبصورتی بدصورتی کی تمیز ہی چھین لی گئی ہے، سو بھونکتے بولتے رہو اور کچھ نہیں۔ سو پچاس سال بعد کوئی تو لکھے گا کہ کوئی تو تھا جو عوام پر شدید ترین اعتراضات کے باوجود ان کی اور ان کے معصوم بچوں کی خیر مانگتا تھا اور ان کی سربلندی کا خواہشمند تھا۔ میں نے سوچ سمجھ کر خوشحالی کی جگہ سر بلندی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بات بات پر ”غیرت“ کھاکر اپنے قریبی ترین خون کے رشتے موت کے گھاٹ اتار دینے والے حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی اتنی تذلیل کے باوجود ان کے بھونپو کیسے بن جاتے ہیں۔ ملک بھر میں جو حلقہ جس پارٹی سے منسوب ہے، اس کے پسماندہ علاقوں کا سروے کریں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، ابلتے گٹروں، بدبودار نالیوں، گندی گلیوں، ننگی تجاوزات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے گا لیکن ان پر کسی کی غیرت جوش میں نہیں آتی بلکہ الٹا ایسے برباد علاقوں کا ہرچکڑ چوہدری پوری بے حیائی کے ساتھ اہل اقتدار کے ساتھ ہوتا ہے یا اس کے ساتھ جس کی اقتدار میں آمد کا امکان دکھائی دے۔
معاشرہ کی عمارت دو ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، عوام اور اشرافیہ، ان دونوں میں سے ایک بھی صحیح ہو تو مستقبل روشن ہو سکتا ہے کہ چلو بھئی اشرافیہ غیر ذمہ دار سہی، خیر ہے کیونکہ عوام تو ذمہ دار ہیں اور اگر عوام غیر ذمہ دار لیکن اشرافیہ ذمہ دار ہے تو پھر بھی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ”رول ماڈل“ بن کر عوام کو راہ راست پر لے آئے گی لیکن اگر عوام اور اشرافیہ دونوں ہی نہلے ہی دہلے ہوں تو کون سا مستقبل، کیسی بہتری؟ کس قسم کی امید؟
اوپر اربوں ڈالرز کے گھپلے اور نیچے مین ہول کے ڈھکنے سے لے کر مسجدوں کی ٹوٹیاں تک چوری، کوئی ٹیلی فون کی تاریں کاٹ رہا ہے، کوئی سرکاری درخت کاٹ کر ایندھن بنا رہا ہے، کہیں گلیشیئر چوری تو کہیں گیس اور بجلی پر ڈاکے… کیسا بدنصیب گھر ہے جس کے بڑوں سے لے کر بچے تک اسے بیچے جا رہے ہیں۔ پرانے سیانے کہا کرتے تھے کہ بیٹھ کر کھائے چلے جانے سے تو ”کھوہ“ بھی خالی ہو جاتے ہیں۔ تخریب اور تباہی کی یہ ٹو وے ٹریفک کب تک چلے گی؟ اس کی منزل کیا ہو گی؟ کہیں چھوٹو مزاری گینگ، کہیں جیلیں ٹوٹ رہی ہیں، کوئی گاڑی کے کاغذات چیک کئے جانے پر پولیس کو چپیڑیں مار رہا ہے، سرکاری زمینیں بھی محفوظ نہیں، وکلاء کے ہاتھوں مرد کیا خاتون جج کو معافی نہیں، برف کا چھوٹا سا ٹکڑا اٹھانے پر چھوٹے سے بچے کو سوا گھونپ دیا جاتا ہے… مجھے ڈرون سے نہیں، اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے، اوپر سے یہ تھری شفٹ مہنگائی!
سیلاب عظیم، کوئی زلزلہ یا آتش فشاں؟
تازہ ترین