• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ( فخرو بھائی) نے جب 23 جولائی 2012ء کو چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی تو اس وقت بھی کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی اور جب 30 جولائی 2013ء کو انہوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دیا تو اس پر بھی کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ فخرو بھائی کے چیف الیکشن کمشنر بننے پر حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو ایک ” غیر جانبدار“ شخصیت کے طور پر منواچکے تھے اور یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں غیر جانبدار اور غیر متنازع شخصیات صرف انہیں تسلیم کیا جاتا ہے جن پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی نظر عنایت ہوتی ہے اور یہ ”غیر جانبدار اور غیر متنازع شخصیات “ بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہوتی ہیں اور ایسی شخصیات کے لئے ہی اس طرح کے عہدے مخصوص ہوتے ہیں۔ فخرو بھائی کے استعفے پر اس لئے بھی حیرت نہیں ہوئی کہ انہوں نے جو کام کرنا تھا، وہ کردیا۔
یہ کام کیا تھا؟ اس کی وضاحت خودفخرو بھائی نے کردی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی حیثیت سے فخرو بھائی نے جب عہدہ سنبھالا تھا تو پہلے دن سے لے کر عام انتخابات کے انعقاد تک وہ مسلسل یہ بیان دیتے رہے کہ ”پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے اور اس کی بقا اور سلامتی کے لئے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے اور یہ ہمارے لئے آخری موقع ہے“۔ ہر پریس کانفرنس ، ہر انٹرویو اور ہرگفتگو میں وہ کم وبیش یہی بیان دہراتے رہے۔ وہ شاید اس بات کا جواز پیش کررہے تھے کہ انہوں نے یہ عہدہ کیوں سنبھالا۔ وہ دنیا کو باور کرارہے تھے کہ وہ پاکستان کو بچانے کے لئے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانے کی غرض سے آئے ہیں اور عمر کے اس آخری حصے میں ان کی اور کوئی خواہش نہیں ہے۔ حالانکہ فخرو بھائی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان کے خود ساختہ ”چاچے مامے“ بنے ہوئے ہیں اور ہر شعبے میں حاوی ہیں، ان کی پاکستان کو بچانے کے حوالے سے تھیوری مختلف ہے۔
ن کی تھیوری یہ ہے کہ اگر انتخابات شفاف اور منصفانہ ہوئے تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اس تھیوری کی تائید میں یہ لوگ 1970ء کے انتخابات کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور حقیقی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات تھے ۔ ان کے بقول انہی انتخابات کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا ۔ یہ لوگ اپنے عوام اور جمہوریت دشمن افعال کے بجائے شفاف انتخابات کو ہی پاکستان ٹوٹنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان کے عوام نے 1947ء میں بننے والی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ نام نہاد سیاسی جماعتوں کونہ صرف مسترد کردیا تھا بلکہ پاکستان کو چلانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص مفادات پر مبنی نظریات اور سوچوں کو بھی رد کردیا تھا۔ ان انتخابات میں پاکستان اپنی حقیقی تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا تھا ۔
یہ بات پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو برداشت نہیں ہوئی جو مسلسل23 سال تک فوج ، عدلیہ ، ذرائع ابلاغ اور طاقت کے دیگر اداروں کے بل بوتے پر عوام کے حق کی حکمرانی سے منکر رہی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو یہ پتہ چل گیا کہ اب مشرقی پاکستان کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں لہٰذا اس نے باقی ماندہ پاکستان میں عوام کو حق حکمرانی سے محروم رکھنے کے لئے ایک نئی جارحانہ حکمت عملی اختیار کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف آج پاکستان لہو لہو ہے بلکہ فخروبھائی تو کیا کوئی بھی یہاں آزادانہ سیاسی عمل اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی نہیں بناسکتا۔ فخرو بھائی نے انتخابات کراتو دیئے ہیں لیکن پاکستان کو بچانے والی تھیوری وہی کارگر ثابت، جس کا پرچار پاکستان کے خود ساختہ چاچے مامے کرتے ہیں۔ پورے پاکستان میں انتخابی نتائج کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ نتائج مذکورہ تھیوری کے مطابق ہیں۔ اب یہ پتہ نہیں ہے کہ فخرو بھائی کے ذہن میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی تعریف کیا تھی۔
اب بھی فخرو بھائی اس بات پر اصرار کررہے ہیں کہ انہوں نے دھمکیوں اور دباوٴ کے باوجود شفاف انتخابات کرائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا اور انہوں نے اپنے طور پر ایسے انتخابات کرانے کی کوشش کی ہوگی جو واقعتاً شفاف انتخابات کے زمرے میں آتے ہوں لیکن انتخابات میں حصہ لینے والی کوئی بھی پاکستان کی سیاسی جماعت انتخابات کو شفاف ، منصفانہ اور آزادانہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی سیاسی جماعت نے بھی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنے دیئے تھے ۔ ایک سیاسی جماعت کا الزام ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ریٹرننگ افسروں نے کی۔ ان کے بقول الیکشن کمیشن بے بس تھا۔ اب اس پر کیا کہا جائے کہ فخرو بھائی پاکستان بچانے کے لئے شفاف انتخابات کرانے کا عزم لے کر آئے تھے لیکن جب انہوں نے چیف الیکشن کمشنرکے عہدے سے استعفیٰ دیا تو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اطمینان کا اظہارکیا ۔ اب یہ فخرو بھائی کو سوچنا چاہئے کہ عمر کے آخری حصے میں انہیں کیا ملا۔
اگرچہ فخروبھائی نے اپنے منہ سے کچھ نہیں کہاہے لیکن ان کے استعفے پر کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ صدارتی انتخابات کاشیڈول تبدیل کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پرفخروبھائی کو تحفظات تھے لیکن سیاسی جماعتیں یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرفخروبھائی کو ریٹرننگ افسروں کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر انہیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے خود فخرو بھائی بہتر طور پر وضاحت کرسکتے ہیں۔ استعفے کے اسباب کے بارے میں بھی بعض اندازے قائم کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فخرو بھائی کا انجام بھی وہی ہوگا، جو پاکستان کی تاریخ میں ” غیر جانبدار اور غیر متنازع شخصیات “ کا ہوتا آیا ہے۔ جب ان شخصیات کا کام مکمل ہوجاتا ہے تو ساری باتیں کھل جاتی ہیں۔ غیر جانبدار اور غیرمتنازع شخصیات اور پورا سسٹم لوگوں کو سمجھ آنے لگتے ہیں۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات اور 30جولائی 2013ء کے صدارتی انتخاب کے بعد پاکستان بحرانوں سے نکل آئے گا یا نہیں اور فخرو بھائی نے ملک کوٹوٹنے سے بچانے کے لئے آخری موقع کا فائدہ اٹھایا یا نہیں، اس کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ”بیلٹ“ کی طاقت پر لوگوں کے اعتماد کو بہت دھچکا لگا ہے اور ”بلٹ “والے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔ حقیقی جمہوری اور عوامی سیاست کرنے والے اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فخرو بھائی کو بعد میں احساس ہو گیا ہو اور انہوں نے اس سسٹم کا مزید حصہ بننے سے انکارکر دیا ہو لیکن اس بات کا پتہ لوگوں کو کیسے چلے گا۔بیرسٹر اعتزاز احسن اور علی احمد کرد جیسے لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے تو اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہیں۔ یہ لوگ بھی عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں سیاسی اور جمہوری قوتوں کی اجتماعی دانش سے منکر ہوگئے تھے اور انہوں نے سمجھا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہی اصل جمہوری تحریک ہے اور برسہا برس سے قربانیاں دینے والی جمہوری تحریک کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبدار اور غیر متنازع رہنما بننے کی کوشش کی تھی لیکن کیونکہ ان دونوں شخصیات کا پس منظر عوامی اور قومی جمہوری جدوجہد سے دیرینہ وابستگی کے حوالے سے سیاسی تھا لہٰذا انہیں وقت کے ساتھ ساتھ بات سمجھ آگئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فخرو بھائی بھی انہی لوگوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں۔ ملک کے لئے آخری موقع انہوں نے کھودیا یا نہیں ، ان کے لئے یہ آخری موقع ہے کہ وہ قوم کو سب کچھ بتادیں ورنہ معاملہ تاریخ کے سپرد ہو جائے گا۔
تازہ ترین