• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضیہ فاروقی

پھر دِل کے جلانے کو چلے گی پُروائی

کیا یاد ہمیں آیا، کیوں آنکھ یہ بَھر آئی

کس موڑ پہ لے آیا اندازِجنوں ہم کو

اب خود ہی تماشا ہیں اور خود ہی تماشائی

وہ لمحۂ فرقت، جو آنکھوں میں رہا میری

ہر سُو مجھے اُن کی ہی تصویر نظر آئی

دیکھا تھا انہیں جاتے، تاحدّ ِ نظر مَیں نے

پھر دیدۂ گریاں کی لَوٹی نہیں بینائی

کس کرب کے عالم میں دن رات گزرتے ہیں

اےکاش! کبھی دیکھے زخموں کی وہ گہرائی

اُمید کا اِک غنچہ ہر روز کِھلاتے ہیں

شاید کہ بہار آئے، شاید کہ بہار آئی

ہم کو بھی ہنر آیا کب اشک بہانے کا

جب دل میں نہیں باقی کچھ تابِ شکیبائی

اُلفت کی کہانی کا، بس اتنا فسانہ ہے

اِک لفظ محبّت ہے، اِک لفظ ہے رسوائی

کب ا س سے توقع ہے، وہ حال مِرا جانے

اب درد بھی سینے میں لینے لگا انگڑائی

ہے کشتیٔ جاں میری بس پار اُترنے کو

لے ڈوبے کہیں اس کوتیری نہ شناسائی

کچھ بٹا لیتے، کچھ داغ مٹا دیتے

اےکاش! انہیں آتے اندازِ مسیحائی

اُڑتے ہوئے پتّوں سےکیا گھر کا نشاں پوچھوں

بکھرے ہوئے تنکوں کو اب تک نہ جما پائی

اب خُوب گزرتی ہے ان دونوں رفیقوں میں

اِک ہجرِ مسلسل ہے، اِک ہے مِری تنہائی

دیکھا ہے کہیں رضیہؔ کچھ یاد تو آتا ہے

اِک شخص پریشاں سا، تھا آپ کا سودائی

تازہ ترین