• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فالج ایک ایسی بیماری ہے ،جس میں جسم کا کوئی بھی حصّہ اچانک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس مرض کا تعلق خون کے گاڑھے پَن یا جمنےسے ہے۔ طبّی تحقیق سے ثابت ہے کہ اگر مریض کو فوری طور پر اسپتال لے جائیںاور طبّی امداد فراہم کردی جائے تو ہلاکت اور معذوری سے محفوظ رہنے کے امکانات خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیےورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں 29اکتوبر کو ’’عالمی یومِ فالج‘‘ منایاجاتا ہے۔اس دِن کے لیے اِمسال کا تھیم "Minutes Can Save Lives" ہے۔ 

یعنی چند منٹ زندگی بچا سکتے ہیں، کیوں کہ فالج کے حملے کے بعد ہر گزرتا سکینڈ بھی نہایت اہم ہوتا ہےکہ جوں جوں دماغ کے خلیے (نیوران)ختم ہونے لگتے ہیں، وقت کی اہمیت ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دُنیا بَھر میں13ملین سے زائد افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً ساڑھے پانچ ملین لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔

درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک میں فالج کی شرح بُلند ہے، جس کا اندازہ اس طور لگایا جاسکتا ہے کہ ہر تین میں سے دو افراد، جو فالج سے متاثر ہوتے ہیں، اُن کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک سے ہے۔پاکستان دُنیا بَھر میں آبادی کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہے، جس کی تقریباً پانچ فی صد آبادی فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہمارے یہاں درمیانی عُمر کے نوجوانوں، خاص طور پر خواتین میں فالج کی شرح بُلند ہے۔ اگر اب بھی فالج کے بروقت علاج اور بعد ازاں بحالی کے اقدامات پر توجّہ نہ دی گئی، تو خدشہ ہے کہ آئندہ چند برسوں میں فالج زدہ نوجوانوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔

فالج کی دو بنیادی اقسام Ischemic اور Hemorrhagicہیں۔پہلی قسم میں خون کی نالی میں خون گاڑھا ہونے یا جم جانے کی صُورت میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور مطلوبہ مقدار میں دماغ تک خون فراہم نہ ہونے کے سبب جسم کا کوئی بھی حصّہ مفلوج ہوجاتا ہے، جب کہ دوسری قسم میں دماغ کو خون فراہم کرنے والی شريان پھٹ جانے کے نتیجے ميں فالج ہوجاتا ہے۔ یاد رکھیے،فالج کی علامات ظاہر ہوتے ہی علاج تک تیز رسائی نہ صرف زندگی بچاتی ہے، بلکہ صحت یابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ 

اگر کسی فرد میں فالج کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو مریض کے ساتھ یا آس پاس موجود موجود افراد کو چاہیے کہ فوری طبّی امداد کی فراہمی کا انتظام کریں۔یاد رہے،دُنیا بَھر میں فالج کی علامات سے متعلق معلومات عام کرنے کے لیے ایک لفظ Fast(فاسٹ) استعمال کیا جاتا ہے۔جس میں٭ ایف سے مُراد فیس(چہرہ)ہے۔ کیوں کہ اٹیک کی صُورت میں اچانک چہرے کی ساخت میں تبدیلی واقع ہونے لگتی ہے یا وہ ایک جانب لٹک جاتا ہے۔ ٭ اے سے مُراد آرم(بازو) ہے۔ بازو میں کم زوری کا احساس(گویا بالکل طاقت ختم ہوگئی ہو)ہوتا ہے۔٭ ایس سے مُراد اسپیچ(بات چیت)ہے۔ بولنے میں دقّت پیش آنے لگتی ہے۔ الفاظ اور جملوں کی ادائی میں دشواری ہونے لگتی ہے۔ ٭ ٹی سے مُراد ٹائم(وقت)ہے۔ مطلب، فالج کے حملے کے بعد وقت ضایع کیے بغیر فوری طبّی امداد حاصل کریں، کیوں کہ اگر وہ وقت گزر گیا، تو پھر دماغ کے نظام میں مستقل خرابی واقع ہوجائے گی۔جب کہ محض چند قیمتی منٹ زندگی ہی نہیں، صحت بھی بچا سکتے ہیں۔

فالج کے اثرات قلیل یا طویل مدّتی ہوسکتے ہیں، جن کا انحصار اس امر پر ہے کہ دماغ کا کون سا حصّہ فالج سے متاثر ہوا اور کتنی جلد علاج شروع کیا گیا۔ عموماً فالج کے حملے میں بچ جانے کے باوجود مریض تاعُمر مختلف طبّی مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔ ان مسائل میں چلنے پھرنے یا بولنے سے معذوری کی شرح زیادہ ہے۔ بعض کیسز میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اور احساسات بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔بہرحال، یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور ہمارے مُلک میں اس کا جدید علاج بھی دستیاب ہے، مگرناگزیر وجوہ کی بناء پر اکثریت معیاری و سستے علاج سے محروم ہے۔

نیز، بیش تر مریض اِدھر اُدھر کے مشوروں اور ٹونے ٹوٹکوں پر عمل کرکے بھی یا تو مرض پیچیدہ کرلیتے ہیں یا پھر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔فالج کا بنیادی سبب خون کی شریانوں کا تنگ ہوناہے، جب کہ دیگر عوامل میں تمباکو نوشی، سہل پسندی، غیر متوازن غذا، نشہ آور اشیاء کا استعمال، بُلند فشارِخون، ذیابطیس، دِل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، کولیسٹرول، موٹاپا، ذہنی و نفسیاتی امراض، تنائو اور موروثیت وغیرہ شامل ہیں۔ 

بعض کیسز میں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی وجہ بن سکتی ہیں، تو کووِڈ۔19سے متاثر ہونے کی صُورت میں بھی فالج کے حملے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔دُنیا بَھر میں فالج کے علاج معالجے کے ضمن میں خاصا جدید علاج متعارف ہو چُکا ہے۔ اگرچہ ہمارے یہاں بھی بڑے شہروں کی حد تک نیورو لوجسٹس اور دیگر تربیت یافتہ طبّی عملہ موجود ہے، اس کے باوجودفالج کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔سو، اس صُورتِ حال پرقابو پانے کےلیے انفرادی اور اجتماعی طور پر سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

صوبائی حکومتوں کو چاہیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں میں فالج یونٹس کا قیام عمل میں لائیں، تاکہ اکثریت کو معیاری اور سستا علاج میسّر آسکے۔نیز، ایک بات گرہ سے باندھ لیں کہ فالج کے اٹیک کی صُورت ہنگامی طبّی امداد کے لیے فوری اسپتال سے رجوع کیا جائے اور کسی بھی صُورت مریض کو گھر پر رکھ کر مختلف قسم کے گھریلو ٹوٹکے ہرگز نہ آزمائے جائیں کہ اس سے صرف پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ (مضمون نگار، لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹیسڑی، کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)

تازہ ترین