
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_1_102855_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_2_102855_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_3_102855_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/310_1_102942_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/310_2_102942_album.jpg">
ٹیکنالوجی کی کامیابی اساتذہ کی محتاج
ممکن ہے کہ 2020ء تک ہم اپنے بچوں کو خودکار گاڑی میں اسکول بھی جیںلیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی اوتار(Avatar) استاد کے ذریعے ہمیں پڑھایا جائے اور ڈرون کے ذریعے امتحانات لیے جائیں،کیوں کہ ایسا کرنے کے لیے بھی ہمیں ٹیک ٹیچرز درکار ہوں گے، جو بچوں کو ڈیجیٹل آلات کا دانش مندانہ استعمال سکھائیں۔ اس لیے اساتذہ کی اہمیت اور وقار میں کمی نہیں آئے گی بلکہ وہ ٹیک ٹیچر کے روپ میں طالب علموں کے ہر دلعزیزاساتذہ بن جائیں گے۔ جنرل اسمبلی کے سی ای او اور شریک بانی جیک شوارز کہتے ہیں،’’آن لائن ایجوکیشن ہر مرض کی دوا نہیں۔ جب تک آپ نصا؎ب کو ڈیجیٹل پروگرامنگ کے ساتھ منسلک نہیں کرتے تب تک تبدیلی عبث ہے اور وہ بھی ٹیکنالوجی کے ماہر اساتذہ اور پریکٹیشنرز کی زیرِ نگرانی۔
ڈپلومہ کورسز کارکردگی کی بنیاد پر ملیں گے
آئے روز بڑھتی فیسوں کے ساتھ طالب علموں کی اکثریت کے لیے بھاری فیسوں کی ادائیگی ناممکن ہوتی جارہی ہے،اس لیے آن لائن ڈپلوما کرنے کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ ایسےڈپلوما ہولڈرز ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ ہیں، جنہیں مہارت کی بنیاد پر نہیں بلکہ رٹے کی بنیاد پر ڈگری تفویض کی جاتی ہے۔ افریقا کے اسکولوں میں سب سے بڑا ٹیکنالوجی نیٹ ورک متعارف کرانے والی برج انٹرنیشنل اکیڈمیز کی شریک بانی ڈاکٹر شیمن مےکا اس ضمن میںکہنا ہے،’’آج کل اسکولوں میں ایک، دو یا تین سالہ ڈپلوما کورسز کرائے جاتے ہیں،ان میں طالب علموں میں تخلیقی ذہانت پیدا نہیں ہوتی۔آنے والے دنوں میں اب ڈپلوما کارکردگی اور انفرادی ہنر مند صلاحیت کی بنیاد پر تفویض ہوں گے‘‘۔
طالب علموں کے مابین روابط میں اضافہ
اسکول کلاس روم کی بات کی جائے تو جدید چاک بورڈ اور نوٹس بورڈ کے بجائے کارڈز کی صورت میں متن کی آویزگی کے علاوہ کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی لیکن ہم خیال طالب علموں کے مابین سوشل میڈیا پر ایجوکیشنز گروپس کے بڑھتے رجحان نے طالب علموں کا ایک دوسرے سے رابطہ آسان کردیا ہے،جو آئندہ دو برس میں معمول کی بات ہوجائے گا۔ ڈیموکریٹس فار ایجوکیشن ریفارم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جو ولیمز کہتے ہیں،’’اسمارٹ فون ،ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ نے طالب علموں کے مابین سوشل میڈیا پر انفرادی تدریس اور تبادلہ خیال کی راہیں کھول دی ہیں۔اب وہ دیگر اساتذہ، دانشوروں اور سائنس دانوں سے براہ راست علمی تبادلہ خیال کرسکتے ہیں‘‘۔
ڈیجیٹل ایجوکیشن لازمی ہوگی
ماہرین تعلیم اور تعلیمی ادارے ڈیجیٹل ایجوکیشن دینے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہنرمند دانشوروں پر مبنی افرادی قوت اور اسکلز پر مشتمل نصاب لازمی ہوں گے۔ اس تبدیلی کو ڈاکٹر شیمن مے جغرافیائی تبدیلی سے مماثل قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اب طاقت کا مرکز تبدیل ہورہا ہے،2100ء تک دنیا کی نصف سے زائد آبادی بھارت، چین یا افریقہ کی ہوگی لہٰذا ہمیں ان براعظموں میںتعلیم کی عالمی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے انہیں ان ملکوں میں بسنے والے لوگوں کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور مشرق و مغرب کے مابین اجنبیت کی دیوار کو ڈیجیٹل ایجوکیشن کے ذریعے گرانا ہوگا۔