
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_1_103247_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_2_103247_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/0_3_103247_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/311_1_103321_album.jpg">
" src="https://jang.com.pk/assets/uploads/updates/2018-10-09/311_2_103321_album.jpg">
الیکٹرانک اسکرین کے منفی اثرات
بین الاقوامی تحقیق کاروں نے تصدیق کی ہے کہ ’اسکرین ٹائم‘ کہلانے والی بیشتر سرگرمیاں کسی جسمانی مشقت کے بغیر ہوتی ہیں اور اسکرین ٹائم کی زیادتی کا بچوں پر منفی اثر ہوتا ہے۔
جسمانی مشقت کے لیے وقت نہیں رہتا، وزن بڑھ جاتا ہے۔
ہڈیوں اور نظر کی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔
ذہنی، شعور كی نشوونما اور زبان کی بہتری پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کھانے کی غیر صحت بخش عادات بن جاتی ہے۔
غیر مناسب رویے، بشمول تشدد کے رویے کو فروغ ملتا ہے۔نیند، توجہ مرکوز کرنے، سماجی اور رابطے کی مہارتیں متاثر ہوتی ہے۔
نشوونما کا سنہری دور
چھوٹے بچوں کی نشوونما کا سنہری دور 6برس سے پہلے، خاص طور پر پیدائش سے لے کر2سال تک کا ہوتا ہے، اس میں وہ دن کا 40سے 60فیصد حصہ سو کر گزارتے ہیں۔ انہیں باقی ماندہ وقت اپنے والدین کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ان میں صحت بخش عادات پیدا ہوں اور مجموعی طور پر ان کی نشوونما ہو سکے۔
لائحہ عمل
بچوں کو 2سال کی عمر تک خصوصاًوالدین کے ساتھ بہت زیادہ رابطے کی ضرورت ہے ۔انھیں کسی بھی الیکٹرانک اسکرین والی مصنوعات کے ساتھ رابطے سے بچائیں۔ بچوں کو محدود وقت کے لیے، جو چند منٹ پر محیط ہو، انٹرایکٹو چیٹ کرائی جاسکتی ہے، لیکن وہ والدین کی رہنمائی میں ہونی چاہیے۔ 2سے 5سال تک کے بچوں کے لیے اسکرین ٹائم ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لیے مثال بنیں اور اپنا اسکرین ٹائم کم کریں۔
بچوں کو انعام کے طور پر اضافی اسکرین ٹائم دینا یا سزا کے طور پر اس کو کم کرنے سے بچیں۔ ساتھ میں، اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اسکرین دیکھتے وقت بچے صحیح رُخ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اسکرین سے ان کا مناسب فاصلہ قائم رکھا گیا ہے۔
اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنائے
ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت میں مبتلا کررہے ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں، جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے امراض کی بنیاد پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اس کے تحت چند اخبارت میں کچھ رہنما مضامین شائع کروائے۔ ان ماہرین کے مطابق، پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے، جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔