• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب سے 50 برس قبل مئی 1966ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ٹیکسوں کی چوری کو پوری قوت سے روکا جائے گا لیکن ان برسوں میں بھی مختلف حکومتیں عملاً ٹیکسوں کی چوری کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہیں اور کم از کم 9 بڑی ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء بھی کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف حکومتیں ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کر کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے کے ضمن میں تاریخی کامیابیوں کے دعوے بھی تواتر سے کرتی رہی ہیں لیکن طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے بہتری لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش آج تک کی ہی نہیں گئی۔ وطن عزیز میں ٹیکسوں کی چوری کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ 2010ء میں تقریباً 16 لاکھ ٹیکسوں کے گوشوارے داخل کئے گئے تھے جبکہ گزشتہ مالی سال میں صرف تقریباً 10 لاکھ گوشوارے داخل کئے گئے۔ چند برس قبل ایف بی آر کا دعویٰ تھا کہ اس نے32 لاکھ ایسے انتہائی مالدار افراد کے اثاثوں اور اخراجات کی تفصیلات تیار کرلی ہیں جو ٹیکس کے سالانہ گوشوارے داخل ہی نہیں کرتے۔ ایف بی آر نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ہر حالت میں ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ اگر اس عزم کو پورا کیا جاتا تو ٹیکسوں کی وصولی میں تقریباً 1500 /ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوتا اور ٹیکس گوشواروں کی تعداد 50 لاکھ تک پہنچ جاتی۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ ان بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ان طاقتوں اور مالدار ٹیکس چوروں کو موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ مالیاتی این آر او پر مبنی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111 (4)سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ناجائز اثاثوں کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر قانونی بنا لیں۔ حالیہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس چوری کرنے والوں نے 85/ارب کا کالا دھن صرف 85 کروڑ روپے کی ادائیگی کر کے قانونی بنا لیا جس سے قومی خزانے کو ٹیکسوں کی مد میں صرف ایک سال میں 35/ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ ہم نے اپنے 21/اپریل کے کالم میں کہا تھا کہ پاکستان میں کالے دھن کا حجم تقریباً 20 ہزار ارب روپے ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ گزشتہ 14 برسوں میں امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑتے چلے جانے کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو 9700/ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ افواج پاکستان بھی اب یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں کہ اربوں روپے کا کالا دھن دہشت گردی کی مالی معاونت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ بری فوج کے سربراہ نے بھی ایک برس قبل اس مالی معاونت کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا تھا مگر اب تک کوئی معنی خیز پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ ٹیکسوں کی چوری روکنے میں وفاق اور صوبوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کے لئے مناسب رقم مختص نہیں کی جارہی جبکہ تجارتی بینک ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن سے پیدا ہونے والے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو تو بڑے پیمانے پر قرضے فراہم کررہے ہیں مگر نوجوانوں کو مائیکرو فنانس کے لئے قرضے فراہم کرنے کے ضمن میں وہ پرجوش نہیں ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے چنانچہ نوجوان جرائم اور انہتا پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ناجائز ذرائع (ٹیکس کی چوری، کرپشن اور اسمگلنگ وغیرہ) سے کمائی ہوئی رقوم کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر سفید بنانا اور قانونی تحفظ حاصل کرنا ممکن ہے۔ اسی طرح ناجائز دولت کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرنا عملاً ممکن ہے۔ پاناما لیکس کے ضمن میں جو احتجاجی سیاست ہورہی ہے اور جو مطالبات کئے جارہے ہیں ان میں نہ تو ان خرابیوں کو دور کرنے کی بات شامل ہے اور نہ ہی ان کھربوں روپے کے اثاثوں کی بات کی جارہی ہے جو قیمتی جائیدادوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں میں لگائی گئی رقوم، حصص، حکومتی تمسکات اور گاڑیوں کی شکل میں ملک کے اندر موجود ہیں مگر وہ ایسی آمدنی سے بنائے گئے ہیں جس پرانکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور ان اثاثوں کو ٹیکس کے گوشواروں میں بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر اس ضمن میں کارروائی کی جائے تو اگلے مالی سال میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔ پاناما لیکس کے ضمن میں ہنگامہ آرائی کا مقصد سیاسی مفادات کا حصول اور آگے چل کر بیرونی ممالک میں رکھی ہوئی ناجائز دولت کے لئے بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اجراء کرانا نظر آتا ہے۔
بدقسمتی سے اب یہ واضح ہوتا چلا جارہا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے چوتھے بجٹ میں اگر طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے ایک مرتبہ پھر ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کر نے، معیشت کو دستاویزی بنانے، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنے 500 روپے سے زائد مالیت کے نوٹ منسوخ کرنے، پرائز بانڈز اسکیم کا خاتمہ کرنے، جائیداد کی خرید و فروخت میں اس کی مالیت کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر رکھنے، کالے دھن کو بڑھنے سے روکنے، اسمگلنگ اور ہنڈی کے کاروبار کو ممکنہ حد تک کم کرنے، انکم ٹیکس کے گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو جائیداد کی خرید و فروخت ہی نہ کرنے دینے کے ضمن میں موثر اقدامات اٹھانے کے بجائے نان فائیلرز کی آڑ میں ٹیکس چوری کی قیمت کو تھوڑا سا بڑھانے اور کچھ نمائشی اقدامات پر اکتفا کیا گیا اور انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق (4) 111 )کو منسوخ نہیں کیا گیا تو یہ قومی المیہ ہوگا اور اس کے منفی نتائج آنے والے برسوں پر بھی محیط رہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام معاملات جو اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ پاناما لیکس سے کہیں زیادہ اہم ہیں اور ان کے حل کو لازماً نیشنل ایکشن پلان اور وفاقی و صوبائی کے بجٹ کا حصہ ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آپریشن ضرب عضب اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔ خدانخواستہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں گی اور معیشت مشکلات کا شکار رہے گی۔ امریکی صدر نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ خطے میں امریکہ کی جنگی کارروائیاں لمبے عرصے تک جاری رہیں گی۔ اب تقریباً 15 برس بعد امریکی صدر اوباما نے 13جنوری 2016ء کو کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میںشامل ہے جہاں کئی دہائیوں تک عدم استحکام اور ہیجانی کیفیت رہے گی۔ اس خطرے سے محفوظ رہنے کے لئے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ خود اپنی وضع کردہ حکمت عملی کے تحت لڑنا ہوگی اور اپنی پالیسیوں اور بجٹ تجاویز میں ان اقدامات سے اجتناب کرنا ہوگا جو اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔
تازہ ترین