• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا منصف ہے اورانصاف کو پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہرمعاشرے میں انصاف کی کرسی پربراجمان فرد اورافراد کوخاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جولوگوں کو انصاف کی فراہمی میں مدد دیتے ہیںان منصفوں کی ایک شکل تووہ ہے جوحکومت کی بنائی ہوئی عدالتوں میں بیٹھ کرفیصلے کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے تین صوبوں خیبرپختونخوا، بلوچستان اورسندھ سمیت فاٹا میں انصاف کی فراہمی کا ایک متوازی نظام جرگے اورپنچائتوں کی صورت میں بھی موجود ہے جہاں پرشاید عدالتوں سے زیادہ فیصلے مقامی سطح پرہی کئے جاتے ہیں۔
ایبٹ آباد کی پندرہ سالہ لڑکی عنبرین کوقتل کرنے کے بعد جب جرگے کا نام ابھر کر آیا تومعلوم ہو ا کہ جو انصاف کی فراہمی کے اس مقامی نظام یعنی جرگے کا نام لے رہے ہیں وہ اس سے بے خبرہیں کہ دراصل جرگہ ہوتا کیا ہے اسی لئے کچھ تمہید ان کے لئے جنہیں نہیں پتہ کہ ان معاشروں میں جرگے ہوتے کیا ہیں ،کرتے کیا ہیں اوران کے کام کا طریقہ کارکیا ہوتا ہے؟ ۔ جرگہ کی تشکیل کچھ یوں ہوتی ہے کہ دوفریقوں کے مابین کوئی تنازع نمودارہونے کی صورت میں اہل خیریعنی وہ مقامی لوگ جواس تنازعے کو حل کرنے کی رضاکارانہ کوشش کرتے ہیں اٹھ کھڑے ہوں اورفریقین کو اس بات پرراضی کریں کہ وہ اس مسئلے کوبات چیت کے ذریعے حل کریں تاکہ خون خرابے اورمزید نقصان سے بچاجاسکے ۔اس کام کے لئے وہ تنازعے کے فریقین سے ایک ایک یا دو دو ایسے لوگ لیتے ہیں جن پرمتعلقہ فریق کو اعتماد ہوکہ وہ جرگے میں ان کے مفاد کا تحفظ کریں گے۔ اس کے بعد جرگہ فریقین سے بنیادی طورپرمسئلے کے حل کے لئے اختیارحاصل کرتا ہے اورکچھ ایسی ضمانتیں (اکثربھاری رقوم کی صورت میں ہوتی ہیں)لیتا ہے کہ اگرکسی فریق نے فیصلے کو تسلیم نہ کیا تواس کو اپنی زرضمانت یا اس چیز سے دستبردارہونا ہوگا جواس نے جرگے کے پاس رکھی ہوتی ہے جس کے بعد جرگہ یعنی وہ غیرجانبداراہل خیرجومسئلے کے حل میں خدا واسطے دلچسپی لیتے ہوں فریقین کے ان نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کرمسئلے کو سمجھتے ہیں اورمسئلے کو کچھ یوں حل کرتے ہیں کہ فریقین میں سے جوحقدارہواسے اس کا حق مل سکے اورمعاملہ مفاہمت سے حل ہوسکے اس کے بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو بعض معاشروں میں ثالثی ومصالحتی کونسلوں کے نام سے رائج ہے جوفوجداری، دیوانی اورعائلی تنازعات کا تصفیہ کرتی ہیںان کا طریقہ کاریہ ہے کہ وہ لوگوں کو تھانہ کچہری کے چکراورجانی ومالی نقصان کوروکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جرگہ یا کونسل ان اتفاقی نکات کا مسودہ تیارکرکے فریقین کوسناتی اوراسے نافذکرتی ہے اس طریقے سے فریقین کو ایک بھی پائی خرچ کئے بغیرمسئلے کا حل مل جاتا ہے۔انہی اچھی باتوں کو مدنظررکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں پولیس نے خود مصالحت کا ایک نظام یعنی ڈی آرسی بھی متعارف کرایا ہے جہاں پرمعاشرے کے چند معززپیشوں سے وابستہ لوگ بھی تنازعات کو ایف آئی آرکے اندراج سے پہلے حل کرتے ہیں۔
یہ وہ سارا طریقہ کارہے جوایک جرگہ اختیارکرتا ہے تاہم عنبرین کے کیس میں واضح نظرآتا ہے کہ اس کوسزادیتے ہوئے اس طریقہ کارکوبالکل بھی اختیارنہیں کیا گیا بلکہ اسے یکطرفہ طورپرایک ہی ذہن اورفریق کے لوگوں نے آپس میں بیٹھ کرسزاسنائی اوراس پرعمل بھی کرڈالا۔ اب تک کی تحقیقات سے جوبات سامنے آئی ہے اس کے تحت ایبٹ آباد کے گائوں مکول میں ہونے والے اس خودساختہ جرگے میں متاثرہ لڑکی یعنی مقتولہ عنبرین کی جانب سے کسی نے حصہ نہیں لیا اس کے موقف کوکسی نے نہیں سنا اوراس کے خلاف فیصلہ سنا کرجرگہ یعنی عدالت نے خود انتظامیہ بن کر فیصلے پرعمل بھی کرڈالا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فیصلے کو جرگے کا فیصلہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں توجواب بالکل نفی میں ہے کہ نہیں کسی نے دوسری طرف کی بات کو سنا اورسمجھا تک نہیں۔
لیکن یہ صرف عنبرین تونہیں اس سے پہلے مختاراں مائی اوربہت ساری ایسی خواتین اس قسم کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جن کے بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے جرگوں اورپنچائتوں کو غالبایقین کامل تھا کہ کون ان سے پوچھ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا اورکون ان کے خلاف ان کے اوپرکی کسی عدالت (جوعمومانہیں پائی جاتی) میں جاکراپیل کرسکتا ہے۔
عنبرین کے خلاف اس خودساختہ جرگے کے فیصلے نے پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ آج جب لوگ انصاف کے حصول کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں توان جرگوں کو منعقد کون کرتا ہے تواس سوال کا جواب بڑا ڈرائونا ہے کہ اب اہل خیرکے سنگ کچھ ایسے عناصرنے اس دھندے میں ہاتھ ڈال دیا ہے جوہاتھ میں بندوق اورسینے میں پتھرجیسے دل رکھتے ہیں جن کی نظرلوگوں کو انصاف دینے کی بجائے اس زرضمانت پرہوتی ہے جوان کے پاس رکھی جاتی ہے یہ خودساختہ جج کون ہیں اس کا جواب بڑا تلخ ہے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی میں مختلف قسم کے قابل دست اندازی قانون جرائم میں ملوث ہوتے تھے اورکرائے پرقتل، منشیات کے کاروباراورجوئے کے اڈوں کے مالک تھے جس میں پولیس انہیں پکڑپکڑکرسالوں اورمہینوں تک جیلوں میں ڈالتی تھی اوروہ اس زندگی سے بڑے تنگ تھے تاہم پھرانہیں اس تنگ زندگی سے جان چھڑانے کے لئے امید کی ایک کرن نظرآئی کہ کیوں نہ وہ یہ جرائم چھوڑکراپنی بندوق اورطاقت سے لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے نام پران جرگوں کا کاروبارشروع کردیں۔
خود پولیس کو بھی معلوم ہے کہ پشاورجیسے قریباََ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے بہت سارے اڈے آباد ہوچکے ہیں جہاں پرکاروبارہی صرف ان جرگوں کے نام پر ہوتا ہے جہاں پرقریبی قصبات ودیہات سے آنے والے سابق بدمعاش اورطاقتورلوگ صبح آتے ہیں انصاف کی کرسی پربیٹھتے ہیں جس کے حق میں یا خلاف فیصلہ ہواس سے رکھی گئی زرضمانت کا ایک بڑا حصہ مسئلہ حل ہونے کے بدلے لیتے ہیں اورشام کو اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں واپس اپنے گھروں کو سدھارتے ہیں۔
اس سارے عمل کا افسوسناک پہلویہ ہے کہ یہ سارے ریاست کے نظام انصاف میں ہونے والی تاخیرسے فائدہ اٹھاتے ہیں اوران کے پھیلائے ہوئے کارندے لوگوں کو گھیرگھیرکران کے پاس مسئلہ حل کرانے کے بہانے لاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تویہ مسئلہ بھی خود ہی اسی لئے بناتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے پاس آنے پرمجبورکیا جاسکے اورآخرمیں اگراس سارے عمل کے تاریک ترین پہلوپربھی بات کرلی جائے توشایدبے محل نہ ہوگا کہ وہ لوگ جواپنا مسئلہ حل کرانے آتے ہیں انصاف توکیا لیں گے اپنا وہ گھر، جائیداداوررقم بھی جرگے میں ہارجاتے ہیں جوبچانے وہ اس جرگے میں آتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی باتیں ہیں جوپھرکبھی سہی۔
تازہ ترین