• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دو مالی سالوں میں شعبہ تعلیم کے ساتھ وفاق سمیت دیگر چار صوبوں نے کیا سلوک کیا اس کا اجمالی خاکہ کچھ یوں ہے ۔2015 کے مالیاتی بجٹ میں تعلیم پر 2014 کی نسبت 30.19فیصد زیادہ خرچ کرنے پر صوبہ بلوچستان پہلے نمبرپر رہا۔دوسرے نمبر پر پنجاب آیا جس نے 62.13فیصد زیادہ خرچ کیا۔تیسرے نمبر پر وفاق رہا جس نے 3.13فیصد زیادہ خرچ کیا ۔چوتھے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا جس نے گزشتہ سال کی نسبت 56.7فیصد زیادہ خرچ کیا۔پانچویں نمبر پر صوبہ سندھ رہا جس نے 61.8فیصد زیادہ خرچ کیا۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ خرچ جی ڈی پی کا 68.2فیصد رہایعنی گزشتہ سال کی نسبت یہ اضافہ محض 06.0 پوائنٹ تھا۔تبدیلی کے دعویدار اور تعلیم ، صحت اور انصاف کیلئے دن رات زور خطابت صرف کرنے والے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے زیرانتظام صوبہ خیبر پختونخوا کی صورتحال پر روشنی ڈالنا چاہتی ہوں ۔سب سے پہلے شعبہ تعلیم کی طرف آتے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے ایجوکیشن ایمرجنسی کاا علان کیا تھااور 7لاکھ بچوں کو تعلیمی اداروں میں لانے کیلئے انرولمنٹ کمپین چلائی گئی جس میں اساتذہ کو معمول کی تعلیمی سرگرمیاں معطل کرکے اس مہم میں لازمی طور پر شامل ہونےپر مجبور کیا گیا اس کے باوجودکے پی کے حکومت اسکولوں میں انرولمنٹ بڑھا نہ سکی۔بم دھماکوں کی وجہ سے بند ہونے والے2ہزار کے لگ بھگ اسکولوں کو کھولا نہ جاسکا ۔خیبر پختونخواکے ایجوکیشن انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سرحد کے25 اضلاع میں5 سے 16 سال کی عمر کے لڑکوں کی تعداد 3.7 ملین ہے۔ان میں سے 7 لاکھ 36 ہزار بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔ لڑکیوں کے معاملے میںصورتحال اور بھی بدترین ہے کہ 4.3ملین میں سے نصف یعنی سترہ لاکھ کے لگ بھگ لڑکیاںتعلیم سے دور ہیں۔ صرف انرولمنٹ ہی وہاں کا مسئلہ نہیں بلکہ پرائمری سطح پر 78ہزار جبکہ سیکنڈری سطح پر 6ہزار3سو15 اسامیاں خالی ہیں۔انٹرمیڈیٹ سطح پر 7ہزار 4 سو 9 پر کوئی استاد موجود نہیں۔اعلی تعلیم کے شعبہ میں22سو کے لگ بھگ اسامیوں پر تعیناتی نہیں کی گئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ہرروز 14فیصد اساتذہ غیر حاضر پائے جاتے ہیں۔ ایک تعلیمی سال میں اسکول اساتذہ 48 دن تک تدریسی عمل سے دور رہے سوچئے اس سال بچوں کا کتنا حرج ہوا ہوگا۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے اکثریت پبلک اسکولوں میں بنیادی تعلیمی و دیگر سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سےبچوں کے ڈراپ آئوٹ ہونے کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔77فیصداسکولوں میں ٹوائلٹ اور 73فیصد اسکولوں کی چار دیواری ہی نہیں ہے۔55فیصد اسکول بجلی اور 67فیصد میں پانی سے محروم ہیں۔78فیصد اسکولوں کی عمارتیں تسلی بخش نہیں ہیں۔یہ صرف کے پی کے ایک شعبہ تعلیم کی صورتحال ہے۔صحت کی صورتحال بھی کوئی قابل رشک نہیں۔ اسپتالوں کی صورتحال لے لیجئے چوہوں نے مریضوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔چوہوں کے کاٹنے والے کیسوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہےجن میں بچے اورخواتین کے ساتھ ساتھ متاثرہ ہورہے ہیں۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں22 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ دو سال ہوگئے حکومت کی طرف سے کوئی ایسی واضح حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے کہ ان کالے بڑے چوہوں کا تدارک کیسے کیا جائے۔طلب کے مطابق ویکسین بھی اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔ چوہوں کو مارنے پر نقد25روپے انعام مذاق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے 11مئی 2013 انتخابات کے بعد کے پی کے کی حکومت سنبھالے ہوئے اس ماہ مئی میں تین سال پورے ہوجائیںگے۔اس دور حکومت میں انھوں نے 126 دن اسلام آباد دھرنے میں لگادئیے۔جس میںوزیر اعلیٰ پختونخوا سمیت پوری کے پی کے انتظامیہ دامے درمے سخنے اپنا کلیدی کردار اد اکرتی رہی۔عمران خان کی سیاست تسلسل سے منفی پروپیگنڈا کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔انھوں نے اپنی مرضی کےجوڈیشل کمیشن کے نتائج کو نہ مان کریو ٹرن کے بادشاہ کا خطاب حاصل کیا ہے۔یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کو بھی انھوں نے متنازع بنا دیا۔ جھوٹے الزامات لگا کر وہ عدالتوں کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ججوں پر بھی تنقید کرکے انھوں نے اس ادارے کو کمزور اور داغدار بنانے کی کوشش کی۔ انکی پوری توجہ صرف اور صرف وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے اورمختلف شہروں میں جلسے کرنے پر مرکوز رہی ۔پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں متوقع جوڈیشل کمیشن پر بھی انھیں سخت تحفظات ہیں۔پریشر بڑھانے کیلئےایک بار پھروہ نئے دھرنے کا علان کرچکے ہیں۔اسی کی تیاری کےسلسلے میں لاہور میں جلسہ کرچکےجسے حیران کن طور پرتحریک انصاف نے اسے لاکھوں کا مجمع قرار دیا حالانکہ ٹی وی چینلوں کی جانب سے گنتی کے بعد یہ واضح ہوگیا تھا کہ بارہ ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں۔ عمران خان صاحب آپکی حکومت سے پہلے تو چوہے اتنے بڑے نہ تھے کہ وہ معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی کاٹنے پر آگئے ہیں۔ پہلے اپنے صوبے کے چوہے مارئیے۔ خدا نہ کرے اگر چوہے طاعون کی وبا بن کر پھیل گئےتو عوام آپ کو معاف نہیں کریں گے۔
تازہ ترین