• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہید بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں تیل، گیس اور معدنی ذخائر سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں کے کئی دورے کئے جس میں اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعظم مجھے بھی دو مرتبہ ترکمانستان لے کر گئیں۔ ان کے ویژن کے مطابق یہ ممالک پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں لیکن بعد کی حکومتوں نے بینظیر بھٹو کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی خاص پیشرفت نہیں کی تاہم موجودہ حکومت نے ان ممالک سے دوبارہ اپنے روابط بڑھائے اور تاپی گیس منصوبہ معاہدہ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے جس کے ذریعے پاکستان اور بھارت، افغانستان کے راستے ترکمانستان سے قدرتی گیس حاصل کرسکیں گے۔ جون 2011ء میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر سینیٹر غلام علی اور میں اپنے ہمراہ 118بزنس مینوں کے ایک بڑے وفد کو پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے میں تاجکستان کے دارالخلافہ دوشنبے لے کر گئے۔ دوشنبے کا اسلام آباد سے فاصلہ صرف ایک گھنٹے 40 منٹ ہے لیکن براہ راست فلائٹ نہ ہونے کی وجہ سے دبئی یا استنبول سے یہ سفر 8 سے 10 گھنٹے طویل ہوجاتا ہے۔ ہماری تاجکستان کے صدر امام علی رحمون، وزیراعظم، وزیر خارجہ، سرمایہ کاری، بجلی، معدنی ذخائر، معاشی امور کے وزراء اور تاجک بزنس مینوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے اور کراچی میں تاجکستان کے اعزازی قونصل جنرل ارشاد علی قاسم نے تاجکستان کے وزیر خارجہ حمرو خون ظریفی کو بتایا کہ چترال سے تاجکستان کی سرحد وخان (Wakhan) صرف 36 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور افغانستان کے راستے اس روٹ کو بنانے کے بعد پاکستان سے تاجکستان چند گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے جو دونوں ممالک کی تجارت میں بڑا سودمند ثابت ہوگا۔
قارئین! تاجکستان میں یکم مئی سے 30 ستمبر کے دوران پن بجلی سرپلس ہوتی ہے جسے ضائع کردیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں گرمیوں میں توانائی کے بحران کے باعث ہمیں شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاجکستان کے صدر سے ہماری ملاقات میں کاسا 1000 منصوبے کے ذریعے پاکستان کو 1000 میگاواٹ بجلی فراہم کرنے پر بات چیت ہوئی تھی اور مجھے خوشی ہے کہ اب وزیراعظم پاکستان نے تاجک صدر، افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور کرغزستان کے وزیراعظم سورونبے کے ساتھ کاسا 1000 پاور پروجیکٹ کا افتتاح کیا ہے جس کے تحت 2018ء تک 1222 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنز کے ذریعے کرغزستان اور تاجکستان سے پاکستان کو گرمیوں میں 1000 میگاواٹ اور افغانستان کو 300 میگاواٹ بجلی فراہم کی جاسکے گی۔ 1222 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن کاسا 1000 کا فاصلہ شمالی امریکہ سے 3,40,000 کلومیٹر اور یورپ کے 2,30,000 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن کے منصوبوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کی لاگت 1.17ارب ڈالر ہے جس میں 801 ملین ڈالر ٹرانسمیشن لائن اور انفرااسٹرکچر پر آئندہ 3 سالوں میں خرچ ہونگے جس کی فنانسنگ ورلڈ بینک (IDA)، یورپین انویسٹمنٹ بینک (EIB)، افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ (ARTF)، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک (IsDB) کے علاوہ امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کے بینک کرینگے۔ کاسا 1000 منصوبہ تکمیل کے بعد وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیاء علاقائی ممالک (CASAREM)میں بجلی کی قلت دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور سردیوں (اکتوبر سے اپریل) میں ترکمانستان، ازبکستان، قازقستان اور روس اس منصوبے سے اپنی اضافی بجلی ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے۔ اس منصوبے کے تحت افغانستان، پاکستان، کرغزستان اور تاجکستان نے منصوبے کی فنانسنگ کیلئے ورلڈ بینک کو 7 جولائی 2016ء تک اپنی حکومتی گارنٹیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق کاسا 1000 منصوبے کی لاگت میں پاکستان 200 ملین ڈالر، افغانستان 300 ملین ڈالر، تاجکستان 250 ملین ڈالر اور کرغزستان 200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔
ہمارے خطے جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے خطے کے ممالک میں بجلی کا بحران ہے۔ خطے کے ممالک میں افغانستان میں بجلی کی فی کس کھپت 31KWh سالانہ، بنگلہ دیش کی 195KWh، بھوٹان 1278KWh، بھارت 527KWh، مالدیپ 793KWh، نیپال 88KWh، پاکستان 414KWh اور سری لنکا 391KWh ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 13%، بنگلہ دیش میں 47%، بھوٹان میں 60%، نیپال میں 44%، پاکستان میں 84% اور سری لنکا میں 88% افراد کو بجلی کی رسائی حاصل ہے لیکن ان ممالک میں بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں لوگوں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش میں گرمیوں میں بجلی کی قلت 1500-1800 میگاواٹ، بھارت میں 11460 میگاواٹ، نیپال میں 400 میگاواٹ، سری لنکا میں 300-500اور پاکستان میں تقریباً 5000 میگاواٹ ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ 2018ء تک پاکستان میں بجلی کی موجودہ قلت ختم کردی جائے گی اور Early Harvest بجلی پیدا کرنیوالے منصوبوں سے حاصل کردہ بجلی سے پاکستان خطے کے دوسرے ممالک افغانستان، بھوٹان، مالدیپ کی طرح لوڈشیڈنگ فری ملک بن جائیگا۔
قارئین! یاد رہے کہ دنیا میں پانی سے پیدا کی جانے والی پن بجلی سب سے سستی اور صاف توانائی ہوتی ہے لیکن ڈیمز بناکر پن بجلی حاصل کرنے کے منصوبے طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد پن بجلی پیدا کرنیوالے ہمارے بڑے منصوبے سیاسی اختلافات کا شکار ہوگئے اور ملک کا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل کالا باغ ڈیم فائلوں کی نذر ہوگیا۔ موجودہ حکومت اب چھوٹے ڈیمز کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ آزاد جموں و کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں چھوٹے ڈیمز سے بجلی پیدا کرنے کا بے انتہا پوٹینشل موجود ہے۔ پاکستان کا اوسط پیداواری لاگت (انرجی مکس) نہایت مہنگا ہے کیونکہ ملک میں زیادہ تر بجلی فرنس آئل اور قدرتی گیس سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ ہائیڈرو اور کوئلے سے سستی بجلی پیدا کرنے کی مقدار نہایت کم ہے۔ سستی اور کلین انرجی پیدا کرکے ہم پاکستان کا انرجی مکس بہتر کرسکتے ہیں۔ کاسا 1000منصوبے سے حاصل کی جانے والی بجلی ہماری بجلی کے مجموعی شارٹ فال کا 20% ہے جس کی ہمیں آپریٹنگ کاسٹ تقریباً 9.35 سینٹ فی کلوواٹ آئیگی جس میں پاکستان کی افغانستان کو 1.25 سینٹ فی کلو واٹ ٹرانزٹ فیس بھی شامل ہے جس سے افغانستان کو تقریباً 40ملین ڈالر سالانہ آمدنی ہوگی لیکن افغانستان کو اپنے ملک سے گزرنے والی ٹرانسمیشن لائنز کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہوگا۔
میں علاقائی توانائی کے اس اہم منصوبے کاسا 1000 کے افتتاح پر وزیراعظم پاکستان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے بینظیر بھٹو کے اس ویژن کہ وسط ایشیائی ممالک پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں، کو عملی جامہ پہنایا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ہمارے جون 2011ء کے دورے میں تاجکستان کے صدر سے کاسا 1000 پر ہونیوالے مذاکرات کو آج ہم عملی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ کاسا 1000، سی پیک منصوبے کے تحت علاقائی روابط کی ایک بہترین مثال ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چائنا پاکستان معاشی راہداری کے منصوبوں سے وسط ایشیائی ریاستیں پاکستان کے گوادرپورٹ اور لینڈ روٹ کے راستے یورپ تجارت کرسکیں گی۔
تازہ ترین