• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ یا قبر میں لیٹنے کی کیفیت کیا ہوگی؟ شاید میری طرح بہت سارے لوگ ان باتوں پر اس طرح غور نہیں کرتے جیسے روزمرہ کے معمولات یا زندگی کی دوسری باتوں پر صحیح معنوں میں سوچ بچار کرتے ہیں۔ حالانکہ بچپن سے ہمیں ان دونوں باتوں یعنی عذاب قبر اور مرنے کے بعد اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کے بارے میں بہت تفصیل سے ذہن نشین کرایا جاتا ہے تاکہ ہم نیکی کی طرف مائل ہو سکیں اور برے کاموں سے دور رہیں لیکن کیا کیجئے کہ مجھ جیسا عام انسان جب تک زندہ ہے وہ اچھائی اور نیکی کے کاموں کی طرف اگر راغب ہوتا ہے تو صرف اس لئے کہ اس سے اسے ایک گونا تسکین اور راحت نصیب ہوتی ہے عذاب قبر اور جزا وسزا ذرا دور کی بات لگتی ہے۔
لیکن خدا بھلا کرے آج کی ترقی یافتہ میڈیکل سائنس کا کہ اس نے میرے جیسے لوگوں کو زندگی میں ہی قبر کے ذائقے سے آشنا کرنے کا بڑا وافر بندوبست کر دیا ہے۔ بس ذرا سا بہانہ چاہئے ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فوراً آپ کے لئے ایم آر آئی (MRI) تجویز کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ایم آر آئی کیا بلا ہے سنا ضرور تھا اور تصویروں میں ایک غار نما سرنگ (Tunnel) دیکھی بھی تھی لیکن اپنی تو کیا کسی دوسرے کی بھی ایم آر آئی میں نے ہوتے ہوئے نہیں دیکھی تھی اس کے باوجود چونکہ مجھے ایکسرے اور اسی قبیل کی دوسری چیزوں سے خدا واسطے کا بیر ہے جو عام زندگی میں مجھے مائیکروویو اوون سے بھی حتی المقدور دور ہی رکھتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ان نظر نہ آنے والی شعاعوں سے بڑی الجھن ہوتی ہے اس لئے جب ڈاکٹر نے فوراً ہی میرے لئے ایم آر آئی تجویز کردیا تو میں چپکے سے بھاگ لی نہ تو یہ ٹیسٹ کرایا اور نہ پلٹ کر اس ڈاکٹر کے پاس ہی گئی۔
مسئلہ بھی تو معمولی سا ہی تھا کہ میرے دائیں کندھے میں مستقل درد رہنے لگا تھا، جسے درد دور کرنے والی دواؤں اور گرم پانی کی بوتل سے سینک کر جھیلتی رہی۔ درد چونکہ نظر نہ آنے والی چیز ہے اس لئے کسی دوسرے کو میری تکلیف کا اندازہ نہیں ہوا لیکن جب ہاتھ بالوں کو برش کرنے سے بھی محروم ہو گیا تو بیٹا پکڑ دھکڑ کر اپنے خیال سے اس حوالے سے ایک مشہور اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس لے گیا وہ تو مجھے بعد میں یاد آیا کہ یہ وہی ڈاکٹر صاحب تھے جن کا تجویز کردہ نسخہ میں جیب میں ڈال کر بھول بھال گئی تھی اب چھ مہینے بعد امید کر رہی تھی کہ انہیں میں یاد نہیں ہوں گی لیکن اسپتال کا ریکارڈ میرا منہ چڑا رہا تھا چیزوں کے کمپیوٹرائز ہونے کے فائدے بھی بہت ہیں لیکن نقصانات بھی ہیں بہرحال اب کے ڈاکٹر صاحب نے ذرا سختی دکھائی کہ بغیر ٹیسٹ کرائے میں کیا علاج کروں؟ اور یوں ڈھیر سارے خون کے ٹیسٹوں کے علاوہ ایم آر آئی اور پٹھوں اور عضلات کے ٹیسٹ تجویز کر دیئے۔اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بچنے کے لئے میں اپنے میاں کو تو قائل کر لیتی ہوں لیکن اس نئے زمانے کی اولاد سے جان بچانا بڑا مشکل ہے سو مار دھاڑ کرکے ڈانٹ کھا کے (جی ہاں اب بچوں کی ڈانٹ کھانے کا وقت آگیا ہے) میں آخر کار وہاں پہنچ گئی جہاں اب ہر ڈاکٹر اپنے مریض کو بھیجنا ضروری سمجھتا ہے اور اتنا رش ہوتا کہ باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں جب یہ طریقہ ایجاد نہیں ہوا تھا تو ڈاکٹر تشخیص کیسے کرتے تھے؟ لیکن حیرت کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مریضوں کا یہ ہجوم آخر اتنی بڑی بڑی رقمیں کیسے افورڈ کرتا ہے؟
بہرحال اصل مسئلہ یہ نہیں۔ کوئی کسی کو بتاتا کیوں نہیں کہ اس تجربے سے گزرنا کیسا ہوتا ہے؟ سچ پوچھیں تو جیتے جی قبر میں لیٹنے کا مزہ آگیا۔ آپ اسے مزہ چکھنے کے معنوں میں سمجھ لیجئے۔ حالانکہ جہاں سے میں نے ایم آر آئی کرائی ان کے پاس دونوں سائڈ سے کھلنے والی مشین بھی تھی پھر بھی یہ لگ رہا تھا کہ دنیا سے کٹ کر بالکل ہی ایک دوسرے جہان میں پہنچ گئی ہوں خاص طور پر جبکہ پورے وقفے میں۔ جو میری دو طرح کی ایم آر آئی کے لئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کھنچ گیا تھا مجھے بالکل مردوں کی طرح ہلے جلے بغیر ایک ہی جگہ ساکت لیٹنا تھا اور جب گردن کی باری آئی تو تھوک نگلنے سے بھی پرہیز کرنے کی تاکید تھی اپنا دھیان بٹانے کے لئے میں نے یہ سارا واقعہ اپنی پوری زندگی کے اچھے اور برے لمحوں کو پوری تفصیل سے یاد یعنی (RE-LIVE) کر کے دیکھا شاید قبر میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہو گی؟
بہرحال یہ عذاب جھیلنے کے بعد پتہ چلا کہ کندھے کے جوڑ میں پٹھے اور غضلے کے درمیان Tear آگیا ہے۔ آپ اسے کھرونچ سمجھ لیں یا کھنچنے سے پٹھے کی کیفیت۔ بہرحال ساری تکلیف اسی کی پیدا کردہ تھی ڈاکٹر صاحب نے بہت کھوج لگائی کہ کہیں گری تھیں یا کوئی چوٹ آئی تھی؟ لیکن اب میں انہیں کیا بتاتی کہ لکھنے، پڑھنے اور ہانڈی میں چمچہ چلانے اور روٹیاں بیلنے کے علاوہ مشقت کا تو کوئی کام نہیں کیا تھا۔ سو کچھ عرصے کے لئے اس سے بھی توبہ کر لی اور ڈاکٹر کی تجویز کردہ فیزیو تھراپی سے دل لگا لیا لیکن جب تک جان ہے بھلا یہ کام بھی چھوٹ سکتے ہیں کہ انہی میں تو جان ہے۔بات جان کی آئی تو اس تشخیص کے چکر میں میں نے اپنے خون کا شور بھی سن لیا میڈیکل سائنس میں یہ قدرے نیا شعبہ ہے جہاں ای سی جی کی طرح آپ کے پٹھوں اور عضلات کی صحت کو چیک کرنے کے لئے مشین کا سہارا لیا جاتا ہے اور ایک مرحلے پر متاثر حصے کو مختلف جگہوں پر باقاعدہ انجکشن کی طرح سوئیاں چبھو کر مشین پرچیک کیا جاتا ہے جہاں ایک انگلی ہلانے پر بھی ایسا غصب کا شور ہوتا ہے، انسان حیران رہ جاتا ہے۔ خون کے جوش مارنے کا محاورہ بالکل سچ لگنے لگتا ہے اب پتہ نہیں اس سے ڈاکٹروں کی سمجھ میں کیا آتا ہے کم از کم ہمارے پلّے کچھ نہیں پڑتا ویسے میرے جیسے لوگوں کے لئے تو وہی پرانا زمانہ ہی اچھا تھا جب ڈاکٹر روشن جیسے مہربان ڈاکٹر ٹیلیفون پر ہی پوری تفصیل سن کر دوا تجویز کر دیا کرتے تھے اور ان کی تشخیص کے عین مطابق ہم ٹھیک ہو جایا کرتے تھے اب تو کوئی ڈاکٹر فون پر بات کرنے کا روادار نہیں اور ملاقات میں بھی کسی قسم کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی یا کسی دوا کا ری ایکشن ہو گیا ہے تو اگلی ملاقات کا انتظار کیجئے جو عین ممکن ہے ایک مہینے بعد ممکن ہو۔ویسے اسپتالوں کا رش اور ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کا ہجوم دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم لوگ ایک غریب ملک ہیں اور ہمارے ہاں علاج اس قدر مہنگا ہے۔ ایک احساس البتہ شدت سے ہوتا ہے کہ ڈاکٹری، میڈیکل پریکٹس اوراسپتالوں کی دنیا۔ اب ایک بے حد منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جہاں مریض یا انسان کی حیثیت بالکل ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔
تازہ ترین