• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر پانی و بجلی نے لوڈ شیڈنگ میں کمی کی خاطر پنجاب اور کراچی کے کاروباری مراکز کی سرِ شام بندش کا حکم دیا ہے۔ ان کے بقول بازار شام کو جلد بند کرنے سے پندرہ سو میگاواٹ بجلی بچائی جاسکتی ہے۔ وزیر پانی و بجلی نے یہ حیرت انگیز دعویٰ بھی کیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی بازار رات گئے تک کھلے نہیں رہتے اور تمام کاروباری سرگرمیاں دن کی روشنی میں انجام دی جاتی ہیں جبکہ یہ بات حقائق کے سراسر منافی ہے۔ انہوں نے یہ دلچسپ منطق بھی پیش کی کہ ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے سے ایک میگاواٹ بجلی بچانا بہتر ہے۔ انہوں نے شہریوں کو بجلی چوری والے علاقوں میں رمضان کے دوران بھی لوڈ شیڈنگ جاری رکھے جانے کی نوید دی ہے۔ فی الحقیقت بازاروں کے اوقات کار کا بجلی کی فراہمی سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے طویل بریک ڈاؤن تو ملک بھر میں روز کا معمول ہیں جن کے دوران کاروباری مراکز جنریٹر پر چلتے ہیں۔ جبکہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی کاروباری سرگرمیاں عام دنوں کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی ہیں ۔ لوگ عید کی خریداری کے لیے دن بھر روزہ رکھنے کے بعد راتوں ہی کو بازاروں کا رخ کرتے ہیںاور بڑے شہروں میں تو نصف رمضان کے بعد سحری کے وقت تک کاروباری مراکز کھلے رہتے ہیں۔ اس لیے عین رمضان کی آمد پر کاروباری مراکز کا شام ہی سے بند کردیا جانا شہریوں کے لیے یقیناً سخت پریشانی اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے شدید نقصان کا باعث ہوگا۔لہٰذا کاروبار شام سے بند کرانے کا فیصلہ قطعی مناسب نہیں۔ حکومت بجلی نہیں دے سکتی تو کاروباری مراکز کو جنریٹر پر چلنے سے تو نہ روکے۔ تمدنی ترقی اور آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی بجلی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ اس صورت میں بجلی کی پیداوار بڑھانے سے بجلی بچانے کو بہتر قرار دینے کا فلسفہ ہرگز قابل فہم نہیں۔ جبکہ بجلی چوری والے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ جاری رکھنے کے بجائے اصل توجہ چوری ختم کرنے پر دی جانی چاہیے ، تین سال میں بھی بجلی چوری کا خاتمہ نہ ہونا یقینا ًکسی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں۔
تازہ ترین