• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اگرچہ غیر معمولی سست روی کا شکار ہے لیکن جن علاقوں میں بم دھماکے اور فائرنگ روز مرہ کا معمول بن گئے تھے وہ اب نسبتاً پرسکون ہیں۔ان میں کراچی،پشاور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔تاہم دہشت گردوں نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں،ان کی گاڑیوں اور تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔بدھ کو پشاور میں ایف سی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک افسر سمیت تین اہلکار شہید ہو گئے ۔منگل کو کوئٹہ میں فٹ پاتھ پر بم نصب کر کے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پولیس موبائل وین کو نشانہ بنایا گیا جس سے دواہلکار شہید اورگیارہ افراد زخمی ہو گئے۔ہرنائی کے علاقہ شاہ رگ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے وا لے ایک مزدور کے گھر میں گھس کر فائرنگ کی گئی جس سے تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ دہشت گرد دو افراد کو اغوا کر کے اپنے ساتھ پہاڑی علاقے میں لے گئے۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے باوجود دہشت گرد کوئی نہ کوئی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ منگل کو پولیس نے ایسے چار دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی آپریشنز جاری ہیں اور دہشت گردی کی کئی بڑی وارداتیں بروقت کارروائی کر کے ناکام بنائی جا چکی ہیں۔ منگل ہی کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں 12افغان باشندوں سمیت 55مشتبہ افراد گرفتار کر لئے گئے ۔وزیرستان میں پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے بعد مرنے سے بچ جانے والے شدت پسندشہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ جن سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیئے اور متعلقہ اداروں کو انٹیلی جنس سپورٹ سمیت ہر طرح کا اسلحہ اور دوسری سہولتیں دینا چاہئیں تاکہ آپریشن کو زیادہ موثر بنایا جائے ورنہ ان کے ساتھ پر امن شہریوں کی زندگی بھی خطرے میں رہے گی۔
تازہ ترین