• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت کے فاصلے پر کھڑے ہو کر ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کا نظارہ کیا جائے تو ایک ہی ساعت میں انسان یاس و امید کی ایسی کئی وجودی وارداتوں سے گذر جاتا ہے ،جو ناقابل یقین پوشیدہ رموز اور پیچیدہ حقائق آشکار کر دیتی ہیں ۔ آئیے ! 50 سال کے فاصلے پر کھڑے ہو کر چین کے ثقافتی انقلاب کا نظارہ کرتے ہیں ۔ یہ مئی 1966 ہے ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤزے تنگ دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر ’’ ثقافتی انقلاب ‘‘ کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں ۔ یہ انقلاب مختلف مراحل میں تقریباً 10 سال تک جاری رہتا ہے اور 1976 میں ماؤزے تنگ کی موت کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ 15 لاکھ سے زیادہ افرادکی لاشیںجگہ جگہ بکھری نظر آتی ہیں ۔ چین کی خانہ جنگی کے بعد ثقافتی انقلاب میں اس دھرتی پر سب سے زیادہ انسانی خون بہا یا گیا ۔ خانہ جنگی اور ثقافتی انقلاب میں 20 سال سے بھی کم کا وقفہ ہے ۔ اتنے کم وقفے میں چین کا سماج دوسری بار بہت بڑی خونریزی اور افراتفری کا متحمل کیسے ہوا ؟ یہ بہت اہم سوال ہے ۔ انقلاب کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ ’’ حقیقی اشتمالی ( کمیونسٹ ) نظریہ کا تحفظ کیا جائے اور اس کے لیے سرمایہ داری کی باقیات اور روایتی عناصر کا خاتمہ کر دیا جائے ۔ ‘‘ ماؤزے تنگ اپنی تقریروں اور تحریروں میں لوگوں سے مخاطب ہیں ۔ ’’ بورژوازی ( سرمایہ دار ) عناصر بڑے پیمانے پر چین کی حکومت ، کمیونسٹ پارٹی اور معاشرے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر چکے ہیں ۔ وہ چین کو واپس سرمایہ دار انہ نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ مسلح طبقاتی جدوجہد سے ان عناصر کا خاتمہ کر دینا چاہئے ۔ ‘‘ ماؤزے تنگ کی اس آواز پر چین کے عوام خصوصاً نوجوان باہر نکل آتے ہیں اور وہ سرخ محافظوں ( ریڈ گارڈز ) کی غیر منظم فوج بنا کر ایسے عناصر کے خاتمے کے لیے پرتشدد کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کا نظارہ کیجئے ۔ چین کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے اہم عہدیدار اور رہنما مارے جاتے ہیں یا فرار ہو جاتے ہیں ، جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ چین کو پیچھے دھکیل رہے ہیں ۔ نوجوان ریڈ گارڈز شہروں اور دیہات میں پھیل جاتے ہیں ۔وہ چین کی فوج ، پولیس اور انتظامیہ سے زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں ۔ وہ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سرمایہ داری کا حامی ہے اور کسے کب اور کہاں قتل کرنا ہے ۔ چین میں زبردست انتشار ہے ۔ تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں ۔ ریلوے اور ٹرانسپورٹ کا نظام مفلوج ہو چکا ہے ۔ معاشی سرگرمیاں رک گئی ہیں ۔ شہروں کے ریڈ گارڈز دیہات کی طرف پھیل رہے ہیں اور دیہات سے جوق در جوق ریڈ گارڈز کے دستے شہروں میں داخل ہو رہے ہیں ۔ دولت مند خاندانی پس منظر رکھنے والے لوگ اپنی زندگیاں بچانے کے لیے چھپ رہے ہیں ۔دانشوروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ نوجوان اپنے والدین اور اساتذہ کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انہیں چار پرانی چیزوں سے نفرت ہے ۔ قدیم رسم و رواج ، قدیم ثقافت ، قدیم عادتیں اور قدیم خیالات انہیں برداشت نہیں ہیں ۔ وہ اپنے تاریخی آثار بھی مٹا دینا چاہتے ہیں ۔ غصے کی آگ اس قدر تیز ہے کہ ہر دلیل اور ہر منطق جل کر بھسم ہو رہی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آگ کبھی نہیں بجھے گی لیکن 10 سال بعد یہ نظارہ اچانک تبدیل ہو گیا ۔ یہ سب کیا تھا ؟ اس پر آج 50 سال بعد بھی بحث جاری ہے ۔ اس بحث سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہر عہد کے لوگ اپنے عہد کے معروضی حالات سے باہر نکل کر نہیں سوچتے ہیں اور گذرے ہوئے عہد کے معروضی حالات کا اس عہد کے لوگوں کی طرح ادراک نہیں کر سکتے ہیں ۔ اس حقیقت کا اطلاق ثقافتی انقلاب کے بارے میں تجزیوں پر بھی ہوتا ہے ۔ آج بہت کم لوگ ہیں ، جو ثقافتی انقلاب کو تاریخی طور پر درست قرار دیتے ہیں ۔ زیادہ تر مؤرخین اور تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ ثقافتی انقلاب سے پہلے ماؤزے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت پر گرفت کمزور ہو چکی تھی کیونکہ ان کا ’’ عظیم جست ‘‘ کا معاشی منصوبہ ناکام ہو چکا تھا ۔ کمیونسٹ پارٹی کے اپنے لوگ ماؤزے تنگ کی پالیسیوں کو ’’ یوٹوپیائی ‘‘ ( خیالی ) پالیسیوں سے تعبیر کرتے تھے اور انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماؤزے تنگ نے اس پرتشدد ثقافتی انقلاب سے پارٹی اور حکومت پر دوبارہ گرفت حاصل کی اور اپنی شخصیت کے بارے میں لوگوں میں عقیدت پیدا کی ۔ان کے خیال میں ماؤزے تنگ چونکہ ایک جنگجو اور گوریلا لیڈر تھے ، جنہوں نے خانہ جنگی میں قوم کی قیادت کی ، اس لیے انہیں پرامن اور غیر جنگی ماحول میں کام کرنے کی عادت نہیں رہی ۔ وہ جنگی حالت میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے عادی تھے ۔ مغربی دنیا نے ثقافتی انقلاب پر سخت تنقید کی لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی نے خود اپنی 1981 کی دستاویز میں اس ثقافتی انقلاب کی مذمت کی لیکن تمام تر ذمہ داری ماؤزے تنگ پر عائد نہیں کی ۔ اس دستاویز میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام سے 80 کے عشرے کی ابتداء تک حالات کا جدلیاتی اور تاریخی مادیت کے اصولوں پر سائنسی تجزیہ کیا گیا تھا ۔ دستاویز میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ ثقافتی انقلاب سے چین کی کمیونسٹ پارٹی اور چین کے معاشرے کو زبردست نقصان پہنچا۔ آج کی چینی کمیونسٹ پارٹی بھی 1981 والی دستاویز سے متفق ہے لیکن وہ ثقافتی انقلاب پر مباحثے کی مخالف ہے کیونکہ کمیونسٹ پارٹی کے رہنما آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ثقافتی انقلاب پر بحث ایک بار پھر افراتفری اور انتشار کا سبب بن سکتی ہے ۔ اگر اس اکثریتی رائے سے اتفاق کر بھی لیا جائے کہ ماؤزے تنگ نے پارٹی اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ چین کے عوام خاص طور پر نوجوان اس قدر مشتعل کیوں ہوئے ۔ یہ اشتعال اور غصہ آج کیوں نہیں ہے ، جیسا کہ آج کی چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کہتے ہیں کہ چینی معاشرے میں اب ثقافتی انقلاب کی گنجائش نہیں رہی ۔ اس سوال کے حوالے سے ماؤزے تنگ کا ہی ایک مشہور قول یاد آ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ہم دانشور طفولیت ( بچپن ) کا شکار ہوتے ہیں ۔ ہم ایک پتھر کی جیومیٹری میں ا لجھ جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ پتھر پیسنے والی مشین ہے ۔ ‘‘ ثقافتی انقلاب میں سب سے زیادہ دانشور اشرافیہ ہی قہر و غضب کا نشانہ بنی ۔ دانشوروں کو پکڑ کرسزا کے طور پر دیہات کے ’’ لیبر کیمپس ‘‘ میں رکھا گیا تھا تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ ’’ بادشاہ کا عریاں جسم مکمل طور پر کپڑوں سے ڈھکا ہوا نہیں ہے ‘‘ ، جیسا کہ وہ عام طور پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میری کوئی حیثیت نہیں ہے کہ میں ثقافتی انقلاب کے بارے میں اپنی کوئی حتمی رائے قائم کروں ۔ 50 سال کی دوری سے ثقافتی انقلاب کا نظارہ کرکے میرے وجود پر یہ حقیقت واردات کی طرح نازل ہوئی ہے کہ بقول خواجہ فریدؒ ’’ رمز ، رموز اور پیچیدہ معاملات ، سب کچھ درد ہی سجھاتا ہے ۔ ‘‘ ثقافتی انقلاب غلط تھا یا صحیح ، اس کے قطع نظر تاریخ انسانی میں انقلابات پہلے بھی رونما ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔
تازہ ترین