• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پا کستا ن جمہو ریت کے سفر میں رواں دوا ں ہے تو ہمیں مر حو م نوا بز ا دہ نصر اﷲ خا ں کی بہت یا د آ رہی ہے ۔ 26ستمبر2003کو جمہو ریت کو پا کستا ن کے لئے نا گز یر خیا ل کرنے وا لا مرد قلندر ہم سے جدا ہوا تھا ۔ زند گی کے آخری دن بھی جمہو ری جد و جہد کی کو شش میں گزا رے تھے ۔ مجھے یا د ہے کہ ہم نے سعو دی عر ب اور دو بئی کے دورے کے دوران ہی طے کر لیا تھا کہ ستمبر کے آ خر ی ہفتے میں ARD کا اجلا س بلا یا جا ئے گا تا کہ ARDکے قائدین کو محتر مہ بے نظیر بھٹواور میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں اور چارٹر آف ڈیموکریسی کے لئے تیا ر کی گئی دستاویزات پر اعتماد میں لیا جا سکے ۔ مر حو م اسی سلسلے میں اسلا م آباد کے سفر پر روا نہ ہوئے تھے کہ راستے میں دل کی تکلیف ہو ئی اور با لآ خر 26ستمبر 2003کو وہ اس دنیائے فا نی سے ر خصت ہو گئے پا کستا ن میں جمہو ریت کی بحا لی ا نکا خواب تھا اور مشن تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ جب تک اقتد ار عوام کے پاس نہ ہو گا نہ ملک ترقی کر سکتا ہے، نہ فو ج سر حد وں کی حفا ظت کر سکتی اور نہ بیر و نی دنیا کی نظر وں میںہم ایک با وقا ر قو م بن سکتے ہیں ۔
نو ا بزا دہ نصر اﷲ خاں کی ساری زند گی پا کستا ن کی تر قی اور جمہو ریت کے لئے وقف تھی۔ پا کستا ن کے قیا م سے قبل ایک نو جوا ن کی حیثیت سے نما یا ںرول ادا کر نے والا انسان ایو بی آمر یت کے خلاف ڈٹ کر سامنے آ گیا ۔ پا کستان کی تاریخ ہمیشہ اس با ت کی گوا ہی دے گی کہ جنر ل ایو ب کا ما ر شل لاء ہو یا جنر ل یحیٰی کے فو جی اقتد ار کا تسلسل ایک شخصیت جس کو نو ا بز ادہ نصر اﷲ خاں کہتے تھے نما یا ں تھی ۔اسی طر ح انھوں نے جنر ل ضیا ء الحق کے گیا رہ سالہ دور آ مریت اور جنرل پر ویز مشر ف کے مارشل لا میں جمہو ریت کی بحا لی کی جد وجہد میں اہم رول ادا کیا ۔ پا کستا ن میں آج تک چا ر مار شل لا لگا ئے گئے ہیں ۔نوا بزا دہ نصر اﷲخا ںچاروں فو جی ڈکٹیٹرو ں کے خلا ف جدو جہد کر نے وا لا لیڈر تھا ۔چاروں ما رشل لاکے خلاف سیا سی پا رٹیو ں کو ایک پلیٹ فا رم پر اکٹھا کر نے وا لا شخص بھی یہی تھا ۔چاروںفو جی آمر وں کے ساتھ مذاکرا ت کر نے وا لا شخص بھی نوا بز ادہ ہی تھا اور چا روںفسطائی حکو متو ں کے خلا ف آ وا ز ا ٹھا نے اور جمہو ریت کی بحا لی کی جدو جہد سٹر کو ں اور گلیو ں میں لا نے کا سہرابھی نوا بزا دہ کے حصے میں آتا ہے ۔نوا بزا دہ نصر اﷲخا ں اپنی ذات میں انجمن تھے ۔ وہ ایک سیا سی پا رٹی کے سر بر اہ تھے لیکن انکی ذات ایک سیا سی پا رٹی سے بڑی اور ملک کی کسی بھی سیا سی پا رٹی اور سیاسی لیڈر سے بہت بڑ ی تھی۔ نکلسن روڑ پران کے دروا زے کو کس نے نہیں سلام کیا ؟ جس نے بھی پا کستا ن میں آزاد الیکشن کی خوا ہش کی،پا کستا ن میں عد لیہ کو غیر جا نبد ار کر نے کا نعرہ بلند کیا، میڈیاکو پا بند یو ں سے آزاد کرنے کو ملک کیلئے انتہا ئی فا ئد ہ مند خیا ل کیا ،آئین بحا ل کر نے اور سو ل حکمر ا نی کو نا گز یر قرا ر دیا، اس نے ان مقا صد کیلئے ایک شخص کی شر کت کو لازمی قرا ر دیا ۔کہتے تھے کہ نو ابز ادہ کے بغیر کوئی جدو جہد شر وع نہیں ہو سکتی۔ وہ شخص MOVING SPIRITتھا ۔اس کے بغیر سیا سی پارٹیوں کااتحاد نہیںہوسکتا ۔میا ں نوا ز شریف کی 1997ء کی حکومت کے دوران پاکستان عوامی اتحا د کا قیا م عمل میں آیا تو میں مر حو م نو ابز ادہ کے ساتھ مر کز ی ڈ پٹی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے شر یک ہو گیا ۔ انکے ساتھ یہ قر بت GDAکے قیا م میں بھی جا ری رہی اور جب جنر ل مشر ف کے خلا ف نوا بزادہ نصر اﷲخا ں نے آگ او ر پا نی کو ا کٹھا کر کے دنیا کو حیرا ن پر یشان کر دیا تو بھی میں انکے سا تھ ARDکے مر کز ی تر جمان کی حیثیت سے انکی زند گی کے آخر ی دن تک شریک سفر رہا۔
جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف دسمبر 2000میں ARDکی بنیاد رکھ کر بڑے بڑے ایوانوں کو ہلا کر رکھنے والا یہ شخص تھا میری نوابزادہ نصر اﷲ خان مرحوم سے ملاقات پاکستان عوامی اتحاد کے وقت سے شروع ہوئی تھی ۔ یہ اتحاد میاں نواز شریف کے خلاف بنا تھا پھر اسی دور میں GDAبنا جس میں مزید سیاسی پارٹیوں کو شامل کیا گیا ۔ 12اکتوبر 1999کو جنرل مشرف نے مارشل لا لگایا تو نوابزادہ نصر ا ﷲ خان (مرحوم )نے سخت الفاظ میں مذمت کی حالانکہ کئی سیاستدان خوشی کے گیت گا رہے تھے لیکن نوابزادہ نصر ا ﷲ خان (مرحوم ) نے شہید بے نظیر بھٹو کی طرح وقتی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مارشل لا کی مذمت کی ۔پاکستان کی تاریخ میں ARDکے قیام کو اس حوالے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائیگا کہ اس اتحاد میں ملک کی سب سے بڑی دو پارٹیوں کو اس میں شامل کیا گیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن )پچھلے 15سال سے ملکی سیاست میں اہم رول ادا کر رہی تھیں ۔ اگر ایک پارٹی اقتدار میں ہے تو دوسری ا پوزیشن میں ۔ اس طرح ملکی سیاست صرف اور صرف ان پارٹیوں کے درمیان گھومتی رہی ۔ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر بڑے بڑ ے الزامات بھی عائد کیے ۔ نوابزادہ نصر ا ﷲ خان (مرحوم )نے ایک سال کے مختصر عرصہ میں جنرل مشرف کے خلاف کامیاب اتحاد بنا کر دنیا کو حیران کر دیا ۔ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ 15سال تک ایک دوسرے کے حریف رہنے والے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔ یہ کام صرف ایک شخص کر سکتا تھا اور اس نے نا ممکن کو ممکن بنا دیا ۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر جمہوریت کی بحالی ، آئین کی بالادستی اور ملکی استحکام کی خاطر ARD کی بنیاد رکھی گئی ۔ نوابزادہ نصر ا ﷲ خان (مرحوم ) نے ARD کے پلیٹ فارم سے کامیاب جلسے کئے اور ریلیاں نکالیں ۔سینکڑوں لوگ اور لیڈر جیل گئے ۔ اسطرح جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی ۔ 2008ء میں پا کستا ن پیپلز پا رٹی کا اقتدار حکو مت کے سا تھ ساتھ صدر پا کستا ن کی مدت پو ری کر نا اور آ ج پا کستان مسلم لیگ (ن)کی حکو مت نوا بزادہ نصر اﷲخا ں مر حو م کی جد و جہد، ARD کے قیا م سے وفا ت تک ا ن کی سیا سی مشا ور ت اور دبئی اور سعو دی عر ب میں بے نظیر بھٹو اور میا ں نوا ز شریف سے مذ ا کرا ت کا نتیجہ ہیں۔ آج کے وقت کے لیڈرز اور حکمران کو ئی بھی دعوی کر لیں کہ انکو جمہو ریت کیسے ملی اوروہ کیسے اس ملک کے حکمرا ن ہیں اور انہو ں نے حکو مت کے پا نچ سا ل کیسے پو رے کئے مگر تا ریخ نوا بزا دہ مرحو م کو کبھی فرا مو ش نہیںکر سکے گی ۔ قو میں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنے محسنوں کو یا د رکھتی ہیں ۔ آج ہم خو شیا ں منا رہے ہیں کہ حکو مت نے مدت پو ری کر لی۔صدر اپنے پا نچ سال مکمل کر کے ایوا ن صدر سے رخصت ہو گئے اور مسلم لیگ (ن) کو اقتدا ر کی پر امن منتقلی ہو گئی لیکن یا د رکھنا چا ہئے کہ یہ سب کچھ جمہو ری لو گو ں کی جدو جہد جن کی قیادت ہمیشہ مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کرتے رہے ہیں کی بدولت ممکن ہو ا ۔آج ملک میں جمہوریت مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کا یہی خواب تھا کہ ملک کا صدر منتخب ہو اور پارلیمنٹ بااختیار ہو ۔عدلیہ کی آزادی سب کا خواب ہے ۔میڈیا مکمل طور پر آزاد ی کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔زندگی بھر جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والا شخص جمہوریت کی بحالی کے چار سال قبل ہم سے جدا ہوا ۔وہ آج زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہو تے ۔جمہوریت ان کا خواب تھا اور جمہوریت کو وہ پاکستان کی آزادی خیال کرتے تھے۔جمہوریت کو مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے ۔جمہوریت کے نفاذ کو دہشت گردی کا توڑ کہتے تھے ۔ جمہوریت کو معاشی مسائل کی کنجی قرار دیتے تھے ۔وہ کہتے تھے کہ اگر جمہوریت ہو تو ہم عدلیہ کو آزاد کر سکتے ہیں۔پریس فریڈم کی بات کرسکتے ہیں۔انسانی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنا سکتے ہیں اور لوگوں کے معاشی سائل کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔
تازہ ترین