• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ نے بلوچستان میں ملا اختر منصور کی ہلاکت کے حوالے سے اس انکشاف پر کہ ولی محمد کے نام سے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا اور پاکستان میں مقیم بھی رہا، سختی سے نوٹس لیا ہے۔ یہ بات پہلے بھی خبروں کا حصہ بنتی رہی ہے کہ پاکستان میں جعلی شناختی کارڈ بنائے جاتے ہیں اور بہت سے افغان مہاجرین کو ایسے کارڈ جاری ہوتے رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کسی فرد یا گروہ کا نہیں اس میں نادرا کے اہلکار بھی شامل ہیں اور جعلی شناختی کارڈ بنانے کے لئے بھاری معاوضہ بھی ادا کیا جاتا رہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے دور حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کئے گئے تھے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے پر اس حوالے سے اقدامات کئے تھے اور بڑی تعداد میں پاسپورٹ اور جعلی شناختی کارڈ بھی منسوخ کئے گئے لیکن اس حوالے سے نہ ہی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی ذمہ داروں کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ اس بارے میں بھی عوامی حلقوں کی جانب سے خدشات کا مسلسل اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ شناختی کارڈ بنانے کا طریقہ کا ر ا س قدر ناقص ہے کہ کوئی غیر متعلقہ شخص آسانی سے شناختی کارڈ بنوا سکتا ہے اور جب شناختی کارڈ بن جائے تو پاسپورٹ کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق ملک میں افغانی ہی نہیں اور بھی غیر ملکی افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے جعلی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں را کے جو ایجنٹ پکڑے گئے ہیں ان سے جعلی شناختی کارڈ برآمد ہوئے تھے۔ وزیر داخلہ کا یہ اقدام درست ہی نہیں خوش آئند بھی ہے کہ ملک بھر میں ایک بارتمام شناختی کارڈوں کی تصدیق کرائی جائے ،ابتدائی طور پر ڈھائی کروڑ افراد کی تصدیق ہوگی اور یہ کام 6ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ اس طرح جعلی شناختی کارڈ بنانے پر 7سال سے 14سال تک سزا مقرر کی جائے گی، اگرچہ یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہے لیکن اسے ہر صورت پورا کرنا ہے کیونکہ یہ ملکی سالمیت اور استحکام کی بات ہے۔
تازہ ترین