• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ کی ا ٓمد آمد ہے اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس حوالے سے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کررہے ہیں۔ تعمیراتی کاموں سےتعلق رکھنے والے ماہرین نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے سیمنٹ کے نرخوں میں جو بے محا با اضافہ ہوا ہے اس کے تعمیراتی سرگرمیوں پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس سے اس صنعت کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔وطن عزیز پاکستان میں سیمنٹ کا ریٹ500روپے فی بوری ہے جبکہ بھارت، سری لنکا اور متحدہ امارات میں سیمنٹ کی بوری پاکستانی کرنسی کے حساب سے 250روپے سے لے کر275روپے میں دستیاب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں عام آدمی کو ہر بوری پر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں150سے لے200روپے تک زیادہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ پاکستان کے سیمنٹ ساز ادارے یہی سیمنٹ بیرونی ممالک میں44ڈالر فی ٹن کے حساب سے برآمد کررہے ہیں جس کے نرخ ملکی کرنسی میں240روپے فی بوری بنتے ہیں مگر یہی ادارےمقامی صارفین کوسیمنٹ انہی نرخوںپر فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں، اگرحکومت کی طرف سے سیمنٹ پر لگائے جانے والے مختلف ٹیکسوں کو بھی اس میں شمار کرلیا جائے تو سیمنٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت فروخت340روپے بنتی ہے مگر یہاںپورےملک میںسیمنٹ اس سےکہیں زیادہ قیمت پرفروخت ہورہا ہےجس سے صرف ناجائز منافع خوری کرکے عوام کی جیبوںپرہاتھ صاف کرنےوالوں کو فائدہ ہورہا ہے،حکومت کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر سیمنٹ کے نرخوں کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگر معاملات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو اس سے تعمیراتی صنعت سست روی کا شکار ہوگی اور عام آدمی کے لئے اپنے مکان کا خواب دیکھنا مزید مشکل ہوجائے گا۔
تازہ ترین