• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمانی نظام میں منتخب ایوان ہی سب سے بڑا جمہوری اور آئینی ادارہ ہے جہاں حکومتی معاملات اور امور سلطنت خوش اسلوبی سے ادا کرنے کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے اور عوام کے مسائل و مصائب کے تدارک کیلئے ا قدامات ہی پالیسی بھی مرتب کرنا اسی ا یوان کے فرائض میں شامل ہے۔کئی بڑے جمہوری ممالک میں تو پارلیمانی روایات یہ ہیں کہ مرکزی اسمبلی کا اجلاس سال بھر جاری رہتا ہے اور کسی بھی قانون سازی یا حکومتی اقدام کیلئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ پاکستا ن میں پارلیمانی سال کی مدت96دن ہے کہ اس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس96 دن ہونے ضروری ہیں ا ور تمام وزراء اور ارکان پر لازم ہے کہ اجلاس میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ اپنے محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے بھی ایوان کو اعتماد میں لیںاور ان سے رہنمائی حاصل کریں لیکن پاکستان کی پارلیمانی روایات کچھ اچھی نہیں رہیں۔گزشتہ پارلیمانی سال کے حوالے سے جو ا طلاعات موصول ہوئی ہیں انہیں کسی صورت بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا اور ایسا ہونا ایک جمہوری ملک کیلئے کسی صورت درست نہیں ہے۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق وزیر اعظم جو قائد ایوان ہوتا ہے اس نے پارلیمانی سال میں صرف9 بار ایوان میں شرکت کی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حاضری سب سے کم رہی، وہ صرف5دن ایوان میں آئے۔ خواتین ارکان حاضری میں سب سے آگے رہیں۔2ارکان جمعیت علماءاسلام (ف) کی عالیہ کامران اور خیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی نسیم حفیظ پانیزئی کی حاضری سو فیصد رہی جبکہ سب سے کم حاضری میں بھی خواتین کا یہ نمبر ہے۔ سابق سپیکر فہمیدہ مرزا صرف2دن ایوان میں آئیں۔ اس حاضری کو پارلیمانی آئینہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر اسے مضبوط اور مستحکم نہ بنایا گیا تو جمہوریت اور جمہوری روایات کو برقرار رکھنے کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین