• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے جب پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی اور ان کے دونوں بھائیوں شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو کو قتل کردیا گیا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ بینظیر بھٹو اپنے بچوں کو خونی سیاست سے دور رکھیں گی لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ بلاول بھٹو نے والدہ کی شہادت کے بعد اپنی جان کی پروا کئے بغیر بھٹو ازم کے سفر کو جاری رکھتے ہوئے پارٹی قیادت سنبھالی۔ مجھے یاد ہے کہ جب بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مزار قائد پر جلسے سے کیا تو وہاں میرے علاوہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، امین فہیم، خورشید شاہ، رضا ربانی، اعتزاز احسن، شیری رحمن، چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری، قمر الزماں کائرہ، قائم علی شاہ، ذوالفقار مرزا، فہمیدہ مرزا، فریال تالپور اور نوید قمر کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنما، پارلیمنٹرینز اور سینیٹرز بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس موقع پر اعتزاز احسن نے تجویز دی تھی کہ پارٹی قیادت نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جو پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو موجودہ حالات کے مطابق تشکیل دے سکیں جبکہ پارٹی کے تمام سینئر رہنما مشیروں کا کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان قیادت کی رہنمائی کریں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تاریخی تقریر میں کہا کہ ان کی والدہ کی شہادت کا انتقام صرف جمہوریت قائم رکھتے ہوئے ہی لیا جاسکتا ہے، ہم نے جمہوریت کی بحالی سے آج سیاسی طور پر وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جس کیلئے ہمارے خاندان کے لوگوں نے قربانیاں دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم نے ہمیں پاکستان جیسے عظیم ملک کاتحفہ دیا لیکن زندگی نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا تاہم ذوالفقار علی بھٹو نے 73ء کا آئین دے کر قائداعظم کا خواب پورا کر دکھایا۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ میں خوف کا لفظ نہیں اور شہادت منزل ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد بلاول نے ایک عوامی لیڈر کی طرح پاکستان بھر میں اپنے ورکرز اور ووٹرز کے ساتھ عوامی رابطہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔
بلاول کو تین صوبوں میں پارٹی کا زوال دیکھ کر احساس ہوگیا کہ یہ سب پارٹی لیڈروں کی کرپشن اور خراب گورننس کا نتیجہ ہے اور اب بلاول نے سندھ میں کرپٹ ٹولے پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی میں کافی عرصے سے نئے لوگ نہیں آئے اور زیادہ تر پرانے لیڈروں میں اب کشش نہیں رہی جس کی وجہ سے بلاول بھٹو نے پارٹی کی تشکیل نو کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس مرحلے میں اُنہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں اُن کے والد آصف زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے جنگ اور پیپلزپارٹی کے دور میں جوڑ توڑ کی سیاست شامل ہیں جسے عوام اب مسترد کرچکے ہیں لہٰذا بلاول کو اب ایک مکمل آزاد سوچ کے ساتھ پارٹی کے معاملات کو چلانا ہوگا۔ بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کی تمام ذیلی تنظیمیں تحلیل کرکے پارٹی کی ازسرنو تشکیل اور بحالی کیلئے حال ہی میں پارٹی کے لوگوں کو 6سوالوں پر مشتمل ایک سوالنامہ بھیجا ہے جس کے پہلے سوال میں انہوں نے پارٹی کے بنیادی مقاصد اور ان کے حصول کے بارے میں پوچھا ہے۔ ان کا دوسرا سوال ہے کہ پیپلزپارٹی موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے کس طرح اپنی بنیادی قدریں قائم رکھ سکتی ہے؟ تیسرے سوال میں انہوں نے موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی اور ملک کو درپیش چیلنجز کے بارے میں پوچھا ہے۔ چوتھے سوال میں پارٹی کے مختلف سطحوں پر تنظیمی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے تجاویز مانگی گئی ہیں۔ پانچویں سوال میں پارٹی کے اندر اور باہر رابطوں کو موثر بنانے کے بارے میں پوچھا گیا ہے جبکہ چھٹے سوال میں پارٹی کی ایسی تین انتہائی اہم ترجیحات پوچھی گئی ہیں جو پارٹی کی طویل المیعاد پالیسی کیلئے نہایت ضروری ہوں۔اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے وزیر داخلہ سندھ انور سیال کے گھر پر کراچی کے ممتاز صنعتکاروں، بزنس مینوں، چیمبرز اور فیڈریشن کے عہدیداروں سے ڈنر پر ملاقات کی جس میں میرے علاوہ بزنس کمیونٹی کے لیڈرایس ایم منیر، سراج قاسم تیلی، خالد تواب، حنیف گوہر، ارشد فاروق، ذوالفقار شیخ، یونس بشیر، سینیٹر عبدالحسیب خان، اشتیاق بیگ، عبدالسمیع خان، زبیر موتی والا اور دیگر بزنس مین بڑی تعداد میں موجود تھے جبکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کیساتھ پیپلزپارٹی کی رہنما فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور بختاور بھٹو زرداری نے شرکت کی۔ اس موقع پر بزنس مینوں نے بلاول بھٹو کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا اور سندھ میں سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کے بارے میں بتایا۔ بزنس مینوں نے سندھ میں حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر کے نمائندوں پر مشتمل پلاننگ کمیشن کے قیام کی تجویز بھی دی تاکہ صوبے میں مطلوبہ ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کرکے انہیں ویژن کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔
شہید بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں مجھے پیپلز بزنس فورم جو پیپلزپارٹی اور بزنس مینوں میں ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے، کا کوآرڈی نیٹر نامزد کیا تھا اور اِسی حیثیت سے بلاول بھٹو نے بزنس مینوں سے میٹنگ کے اگلے روز ایک خصوصی ملاقات کیلئے بلاول ہائوس مدعو کیا۔ ایک گھنٹے ون ٹو ون جاری رہنے والی اس میٹنگ میں پارٹی کی تشکیل نو اور پارٹی کے کچھ اہم ونگز کو فعال بنانے کے علاوہ سندھ میں سرمایہ کاری کیلئے مختلف تجاویز زیر بحث رہیں۔ بلاول بھٹو زرداری سے کراچی میں ڈیفنس کلفٹن کے حلقے NA-250 کی میری جیتی گئی نشست کیلئے ایم کیو ایم کے دبائو پر صدر زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے تحت سندھ ہائیکورٹ میں دائر الیکشن پٹیشن کو فیصلے سے ایک روز قبل واپس لینے پر بھی بات ہوئی جس پر مجھے آج بھی دلی افسوس ہے کیونکہ اسی نشست پر گزشتہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف دھاندلی کے اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور بالآخر تحریک انصاف نے متحدہ قومی موومنٹ سے اس نشست کو چھین لیا۔ دوران ملاقات بلاول بھٹو نے تعلیمیافتہ نوجوانوں کو پارٹی میں سرگرم کرنے اور ہماری بیگ فیملی کے نوجوانوں کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس موقع پر میرے ساتھ میرے بھائی اور میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے بانی صدر اشتیاق بیگ بھی موجود تھے۔ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان موذی مرض میں مبتلا لاعلاج بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کررہا ہے۔ اس موقع پر بلاول بھٹو نے ادارے کے بانی صدر اشتیاق بیگ کی خدمات کو سراہا۔ اشتیاق بیگ نے بلاول بھٹو کو بتایا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے دو لاعلاج مرض میں مبتلا بچے ملاقات کے خواہشمند ہیں جس پر بلاول بھٹو نے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کی آئندہ وش گرانٹنگ تقریب میں ان لاعلاج بچوں سے ملاقات کرنے کا وعدہ کیا۔ میٹنگ کے اختتام پر میں نے بلاول بھٹو کو اپنی سوانح عمری "A Limitless Pakistani" پیش کی جس میں شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ میری یادگاری ملاقاتیں اور تصاویر موجود ہیں جسے بلاول بھٹو نے بے انتہا پسند کیا۔
مجھے یاد ہے کہ میں اور اشتیاق بیگ،شہید بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے دوران بی بی سے ملاقات کیلئے اکثر ان کے گھر دبئی جاتے تھے۔ بلاول بھٹو اس زمانے میں طالبعلم تھے جن سے ہماری ملاقات اکثر رات کے کھانے پر ہوتی تھی لیکن آج بلاول بھٹو ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین اور پارٹی کا نیا چہرہ ہیں۔ بلاول بھٹو کو چاہئے کہ وہ پارٹی کی تشکیل نو میں ایسے چہرے سامنے لائیں جو کرپشن سے پاک اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہوں، ان کا ماضی بے داغ ہو تاکہ وہ پیپلزپارٹی کا سوفٹ امیج پیش کریں۔
تازہ ترین