• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں انتخابی مہم کا اگلا اہم مرحلہ دونوں سیاسی پارٹیوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹک کے آئندہ جولائی میں منعقد ہونے والے قومی کنونشن ہوں گےجن میں دونوں پارٹیاں رسمی، قانونی اور اپنے ضوابط کے مطابق امریکی صدارت کے امیدوار نامزد کریں گی۔ابھی تک ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی نامزدگی اور انتخابی مقابلہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ تو اپنے اشتعال انگیز بیانات، اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور کانگریشنل قیادت کے خلاف باغیانہ بلکہ بسا اوقات توہین آمیز بیانات کے باعث امریکی انتخابی سیاست پر اس قدر چھائے ہوئے ہیں کہ ری پبلکن کنونشن کو ’’ٹرمپ کنونشن‘‘ کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ٹرمپ کے مسلمانوں کےخلاف بیانات نےامریکی مسلمانوں پر ابتداء میں انتہائی منفی اثرات مرتب کئے اوروہ انتخابی سیاست کے میدان میں خوف زدہ اور منجمد ہو کر رہ گئےتاہم اب زمینی حقائق اور مستقبل کے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے امریکہ کی مسلم قیادت نے اپنی صفوں میں اشتراک اور مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کا آغا ز کر دیا ہے گو کہ یہ کام شروع میں ہو جانا چاہئے تھا پھر بھی تاخیر کے باوجود یہ آغاز امریکہ کے مسلمان ووٹروں کیلئے بہت اچھی خبر ہے اور مثبت نتائج کی توقع ہے۔ مئی کے آخری دنوں یعنی میموریل ڈے کے لانگ ویک اینڈ کی تعطیل کے دوران امریکہ کی ایک بہت بڑی تنظیم I.C.N.Aیعنی اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ نے اپنا 41واں سالانہ کنونشن ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کے وسیع و عریض کنونشن ہال میں منعقد کیا جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں کافی مختلف بھی تھا۔ ایک عملی اندازے کے مطابق 20ہزار افراد جن میں مرد و خواتین نئی نوجوان نسل کے مسلمان بچوں کے ساتھ بزرگ قائدین بھی شریک ہوئے۔ ’’اکنا‘‘ کے کنونشن میں پاکستان، بنگلہ دیش، اور بھارت کے مسلمانوں کی اکثریت شرکت کرتی ہے جبکہ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (I.S.N.A)کے کنونشن میں عرب، افریقی ممالک اور جنوبی ایشیا کے مسلمان بھی شرکت کرتے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیںہی امریکی مسلمانوں کے رجحانات، سوچ اور عمل کی سمت اور مسائل کے بارے میں گہرا اثر رکھتی ہیں۔
’’اکنا‘‘ کے اس سالانہ کنونشن میں مختلف مسائل و موضوعات پر کنونشن ہال کے مختلف حصوں میں مذاکرے، مباحثے اور معاملات بشمول فلاحی کاموں کے بارے میں گفتگو کے سیشن منعقد ہوئے تو نئی نسل کے نوجوان مقررین نے بھی اجتماعات سے خطاب کیا اس نئی نسل کی سوچ، حکمت عملی اور عمل کا انداز اپنی بزرگ نسل سے مختلف اور امریکی ماحول کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور یہ بطور مسلم شناخت اور اسلامی اقدار کی غیر روایتی ترجمان ہے اور سچ تو یہ ہے کہ امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل اور شناخت قائم رکھنے کا فیصلہ اس نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے جو ایک جمہوری ماحول مادی طور پر انتہائی ترقی یافتہ اور عالمی طاقت امریکہ کے لائف اسٹائل اور نظام سے گزر کر اپنی شناخت اور اقدار کو منطقی طور پر قائم رکھنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ امریکی سیاسی نظام میں امریکی مسلمانوں کی افادیت اور حیثیت کا تعین بھی اسی نوجوان مسلم نسل پر منحصر ہے اور توقعات مثبت ہیں۔ ’’اکنا‘‘ کے سابق صدر ڈاکٹر زاہد بخاری جہاں ایک علمی شخصیت ہیں وہاں وہ آج بھی فرنٹ لائن پر سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’اکنا‘‘ کنونشن میں انتخابی سیاست اور نئے مسلم ووٹرز کی رجسٹریشن کیلئے قائم اسٹال پر خود بیٹھ کر کام اور نگرانی کرتے نظر آئے تفصیلی گفتگو رہی ۔انہوں نے 25سے زائد بڑی بڑی مسلم تنظیموں کے اشتراک سے قائم ’’ کونسل آف مسلم آرگنائزیشنز‘‘ کے مقاصد کے بارے میں تفصیلات بتائیں ۔کئی ہزار کے اجتماع کے سامنے ’’اکنا‘‘ کے قائدین کے علاوہ کونسل آف امریکن، اسلامک ریلیشنز کے عرب نژاد عہدیدار ،مونا(MONA) اور دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے اسٹیج پر آ کر مشترکہ حکمت عملی کا اعلان کیا۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیانات کے اثرات کا مقابلہ کرنے اور امریکی کانگریس کے انتخابات کے ساتھ مقامی اور ریاستوں کی سطح پر انتخابات میں مسلمانوں کی قیادت اور رول ادا کرنے کیلئے یہ نئی کونسل کام کر رہی ہے۔ دس لاکھ نئے مسلمان شہریوں کے ووٹ رجسٹر کرانے کی مہم امریکہ بھر میں جاری ہے۔ چونکہ امریکی ووٹ رجسٹریشن کیلئے مذہبی شناخت کا کوئی کالم موجود نہیں، لہٰذا مسلم ووٹروں کی تعداد کا پتہ چلانا ممکن نہیں ہے۔البتہ ایک اندازہ کے مطابق جوووٹرز خود آگے بڑھ کر اپنی مسلم شناخت کا اعلان کرتے ہیں وہ امریکہ کے کل ووٹر ز آبادی کا 2تا3فیصد اور برائے نام اقلیت ہیں لیکن مسلم ووٹرز کی18فی صد تعداد ووٹ کا استعمال کرتی ہے جو دیگر اقلیتوں سے کہیں زیادہ بہتر شرح ہے۔ سرگرم مسلم تنظیم (MONA) مونا کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں آباد مسلمانوں کے 25فیصدکاجنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق ہےاس لحاظ سے ’’اکنا‘‘ کی افادیت اور اہمیت مسلم ہے۔ اب مشترکہ خطرات او رسیاسی مضمرات کا مقابلہ کرنے کیلئے 25تنظیموں کا اشتراک تاخیر سے سہی مگر بڑا مفید اقدام ہے۔ ’’اکنا‘‘ کے کنونشن میں دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں کی شرکت اور اعلان سے بڑی حوصلہ افزا فضا پیدا ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں مسلمان ایک ایسی چھوٹی سی اقلیت ہیں جو دیگر اقلیتوں یعنی لاطینی سیاہ فام امریکیوں اور دیگر مذہبی و نسلی اقلیتوں کے ساتھ مشترکہ مفادات کی لائن پر رابطے اور اشتراک کے ذریعے اپنی شناخت اور اثر ورسوخ کو موثر بنا سکتے ہیں۔ دیگر مسلم تنظیموں کو بھی نئی قائم شدہ مشترکہ کونسل میں شرکت اور مشترکہ حکمت عملی پر توجہ دینی چاہئے۔ صدارتی انتخابات میں کام کرنے کے علاوہ دیکھنا ہے کہ کونسل کانگریس اور ریاستوں اور شہروں کے انتخابی عہدوں میںمسلمانوں کے ووٹوں کے استعمال اور امریکی سیاسی نظام میں حیثیت منوانے کیلئے کیا رول ادا کرتی ہے۔ تاہم فی الوقت بہتر ہو گا کہ امریکہ کی دیگر بڑی اور موثر اقلیتوں کے ساتھ مشترکہ مفادات کیلئے مل کر کامیابی حاصل کر تے ہوئے اپنی حیثیت کو منوانے اور اپنے لئے بہتر ماحول پیدا کرنے پر توجہ دی جائے۔ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعہ نے امریکی مسلمانوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا اگر مسلمان قیادت نے دانشمندانہ حکمت عملی اور زمینی حقائق کے تناظر میں درست فیصلے اور اقدامات نہ کئے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت کے اثرات امریکہ کے مسلمانوں کو ایک ایسا دھچکا لگائیں گے کہ ہم سانحہ گیارہ ستمبرکے منفی اثرات کو بھول جائینگے۔ یہ سال ’’اکنا‘‘ اور ’’اسنا‘‘ ،I.S.N.Aسمیت امریکہ میں مسلمان قیادت کے شعور، صلاحیت، وژن کے امتحان کا سال ہے۔ تصادم یا خوف کی بجائے تدبر اور ووٹ کی طاقت و سیاسی شعور کو کام میں لاکر اپنے امیج کو درست کرنے اور حیثیت کو منوانے کیلئے پرامن اور جمہوری طریقوں کی مشترکہ حکمت عملی کی جو ضرورت آج ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ محض امریکی پاسپورٹ حاصل کر کے اسے اپنے آبائی وطن میں لہرا کر خود کو امریکی منوانے کی بجائے ایک اچھے امریکی شہری اور ووٹر کے طور پر اپنی شناخت و حیثیت کو تسلیم کروانے اور امریکی سیاسی نظام کا سرگرم حصہ بننے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین