• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاق اور صوبوں میں مالی وسائل کی تقسیم کیلئے ملک میں نیشنل فنانس کمیشن قائم ہے جو ہرپانچ سال بعد اپنا ایوارڈ دیتا ہے، وفاقی بجٹ اسی کی روشنی میں تیارہوتا ہےاور وفاق کی آمدنی میں صوبوں کے حصے کا تعین متعلقہ صوبے کی آبادی اور غربت کی شرح کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان 2010میں کیا گیا تھا جس کی مدت 30جون 2015کو ختم ہو چکی ہے اور نئے ایوارڈ کا اعلان محض اس لئے نہیں کیا جا سکا کہ ایک صوبے نے کمیشن کیلئے اپنا رکن نامزد نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے نیا وفاقی بجٹ 6سال پرانے ایوارڈ کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہےاور نئے حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ اس سے چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ کو شکایات پیدا ہوئی ہیں اور صوبائی خودمختاری کے حوالے سے سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وسیع تناظر میں صوبائی خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے یہ مثال بھی دی ہے کہ وفاقی بجٹ سے متعلق صوبوں کی تجاویز کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتا جو درست طرزعمل نہیں ہے۔ صوبائی خودمختاری کو سلب کیا گیا تو قوم پرستی کی تحریکیں جنم لیں گی جس سے وفاق کیلئے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے درپیش صورت حال کے تناظر میں وفاقی بجٹ کی منظوری وفاقی کابینہ کی بجائے مشترکہ مفادات کونسل سے لینے پر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے اور صوبوں کو مزیدخودمختاری اور مالی وسائل دینے چاہئیں۔ یہ ایک مناسب تجویز ہے۔ اس سلسلے میں پہلا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ نئے ایف ایس سی ایوارڈ کا اعلان جلد کیا جائے۔ 2010کا ایوارڈ فرسودہ ہوچکا ہے۔ صوبوں کی آبادی، غربت کی شرح اور دوسرے مسائل کا نئے سرے سے جائزہ لے کر وسائل میں ان کے حصے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مزید تاخیر سے صوبوں میں بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور قومی یک جہتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تازہ ترین