• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Kalabagh Dam Haqiqat Kiya Fasana Kiya
(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک اور مفروضہ یا واہمہ جس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے ، وہ کچھ اِس طرح ہے کہ دریائے سندھ پر چشمہ ۔جہلم اور تونسہ ۔ پنجند رابطہ نہروں کی ضرورت نہیں تھی، انہیں سندھ طاس متبادل منصوبوں کے نام پر تعمیر کیا گیاتاکہ پنجاب دریائے سندھ کے پانی کو چُرا سکے۔
سندھ طاس معاہدے کا پس منظر گزشتہ اقساط میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔ سرِ دست زیرِنظر مضمون میں اُس مفروضے کا ذکر کیا جارہا ہے جس کی رُو سے بعض مصنفین سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس متبادل منصوبوں کے تحت چشمہ۔جہلم اور تونسہ ۔ پنجند رابطہ نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی کی منتقلی ایک بد نیتی کا نتیجہ ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ آٹھ رابطہ نہروں میں سے دو رابطہ نہروں یعنی چشمہ ۔جہلم اور تونسہ۔پنجند لنک کینال کے ذریعے دریائے سندھ کے پانی کو جہلم اور چناب کے دریائوں میں منتقل کیا جانا تھا ۔ ہمارے یہاں رابطہ نہروں کی تعمیر کے مقاصد کے حوالے سے طرز فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض آبی ماہرین سمجھتے ہیں کہ دریائے سندھ پر ان رابطہ نہروں کی تعمیر کا مقصد زیریں علاقوں کو اُس دریا کے پانی سے محروم کرنا ہے ، لہٰذا ضرور ی ہے کہ ان نہروں کو زیریں علاقوں کی باقاعدہ اجازت حاصل کرنے کے بعد ہی کھولا جائے۔
دوسری جانب پنجاب کے آبی ماہرین کا خیال ہے کہ اِن نہروں میں پانی چھوڑنے کے بارے میں اندیشے اُس زمانے میں پیدا ہوئے جب صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے نہیں پایا تھا ۔ اُس وقت تک یقینا اس خوف کی توجیہہ موجود تھی ۔ پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پانے کے بعد تمام صوبے صرف اپنے حصے کا پانی استعمال کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور اب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کو یہ اجازت ہونی چاہئے کہ وہ کسی بھی صوبے کو ویٹو پاور دیئے بغیر بھی دریائوںکے پانی کے نظام کو چلا سکے۔
اس مسئلے کا بنیادی تعلق پانی ذخیرہ کرنے کے طریقہ کار ،وقت اور اُسے رابطہ نہر وں میںچھوڑنے سے ہے۔ لہٰذا کسی بھی صوبے کی تشویش دور کرنے کے لئے یہ بات قابلِ جواز ہے کہ دریائوں میں پانی کے بہائو اور صوبوں کی پانی سے متعلق طلب کو مدّ نظر رکھتے ہوئے رابطہ نہروں میں پانی چھوڑنے کے لئے متفقہ طریقہ کار وضع کیا جائے۔ اسی نوعیت کا طریقہ کار اِس حوالے سے بھی تشکیل دیا جاسکتا ہے کہ جن برسوں میںپانی کی قلّت ہو، اُن برسوں میں دریائوں میںپانی کے اخراج کا انتظام و انصرام کس طرح چلایا جائے۔
ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ تربیلا ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن پنجاب نے اس ڈیم کی تعمیر پر اصرار کیا تاکہ دریائے سندھ سے پانی حاصل کیا جاسکے، خواہ زیریں علاقے اس بات سے متاثر ہی کیوں نہ ہوں۔
پانی ذخیرہ کرنے کے معاملے پر اپنی تحقیق کے دوران مجھے بعض ایسے محققین کی تصانیف پڑھنے کا اتفاق ہوا، جو اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیںدریائے سندھ پر کالاباغ یا کسی دیگر مقام پر کوئی ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُن کی رائے کے مطابق ڈیم زیریں علاقوں کی خواہش کے برعکس اُن پر مسلّط کئے جاتے ہیں۔ اُن کا خیال یہ ہے کہ تربیلا ڈیم تعمیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،لیکن پنجاب نے سندھ طاس کے متبادل منصوبوں کے تحت یہ ڈیم تعمیر کرنے پر اصرار کیا۔ یہ محققین سمجھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں پانی کی جس قدر کمی واقع ہوئی ، اُسے پورا کرنے کے لئے منگلا ڈیم کی تعمیر ہی کافی تھی۔
یہ بیانیہ گزرتے وقت کے ساتھ اپنی تاثیر کھو چکا ہے ، کیونکہ اب سندھ پانی کا نسبتاً زیادہ حصہ میسر آنے پر اس کے فوائد سے بہرہ مند ہورہا ہے۔ اگر تربیلا ڈیم تعمیر نہ کیا جاتا تو سندھ کو یہ اضافی پانی دستیاب نہ ہوتا۔ ریکارڈ کی درستگی کے لئے اِس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر کی بڑی وجہ صدر ایوب خان کی جانب سے اس بارے میں کی جانے والی زبردست کوشش تھی۔ اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں پاکستان کے سابق صدر نے تربیلا ڈیم کی تعمیر کے لئے عالمی بنک کے ساتھ اپنی مؤثر اور کامیاب گفتگو کا کریڈٹ خود اپنے آپ کو دیا ہے۔
شایدبہت کم لوگوں کو اس بارے میں علم ہوگا کہ ایک وقت ایسا بھی تھاجب کالا باغ ڈیم کی سائٹ کو تربیلا ڈیم پر ترجیح حاصل تھی۔ 1967ء میں عالمی بنک کے کنسلٹنٹ پیٹر لفٹنک(Peter Lieftinck) نے مغربی پاکستان کے بجلی اور پانی کے وسائل پر ایک رپورٹ مرتب کی ۔مذکورہ رپورٹ میں وہ اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تعمیر کے لحاظ سے تربیلا ڈیم ایک پیچیدہ منصوبہ ہے ، لیکن اس ڈیم کی فزیبلٹی اسٹڈی کالاباغ ڈیم کی نسبت اپنی تکمیل کے اگلے مرحلے میں ہے ، لہٰذا تربیلا ڈیم کی تعمیر پہلے شروع کی جائے۔ غالباً ایوب خان بھی اپنے علاقے سے وابستگی کے باعث تربیلا ڈیم کی تعمیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈز کی شدید قلّت پیدا ہوگئی تو مطلوبہ فنڈز کا بندوبست کرنے کے لئے مغربی دنیا کے پانچ دارالحکومتوں کے طوفانی دورے کئے گئے۔ ایوب خان اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے صفحہ108سے110میں عالمی بنک کو تربیلا ڈیم کی تعمیر پر مائل کرنے کی غرض سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ :
’’مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے عالمی بنک کے ساتھ اپنی گفتگو میںیہ الفاظ استعمال کئے : میں نے اُن علاقوں کا دورہ کیا ہے جو بھارت کی جانب سے پانی روکنے کے بعد متاثر ہوں گے۔ لوگوں نے مجھے واشگاف الفاظ میں بتایا ہے کہ اگر انہیں پیاس اور بھوک کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو وہ ایسی موت پر میدان جنگ میں مرنے کو ترجیح دیں گے اور وہ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں انہیں ایسا کرنے کا موقع فراہم کروں گا۔ ہمارے جوان اور دوسرے لوگ بھی اسی قسم کے جذبات رکھتے ہیں۔ اگرآپ لوگوں نے اپنا دست ِ تعاون دراز نہ کیا تو یہ ملک اِس معاملے پر آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑے گا۔‘‘
جناب وہاب شیخ ’’انڈس واٹر کمیٹی کے روبرو سندھ کا مقدمہ‘‘ میں ایوب خان کی جانب سے تربیلا ڈیم کی تعمیر کو ترجیح دینے کا ذکر اِن الفاظ میں کرتے ہیں :
’’صدر نے بنک کو بتایا کہ اگر وہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے اتفاق نہیں کرتا تو بنک کم از کم تربیلا ڈیم کی جلد تعمیر کی ضرورت کو تسلیم کرے۔‘‘
ذیل میں دیئے گئے جدول میں منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر سے قبل اور بعد میں صوبہ سندھ کو ملنے والے پانی کی مقدار ظاہر کی گئی ہے :

دریائے سندھ کے زیریں علاقوں میں مقیم بعض مصنفین بالائی علاقوں میں ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے عمومی طور پرخدشات کا شکار رہتے ہیں۔ اُن کے خدشات اورخوف کا تعلق اِ س بات سے ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے بعد زیریں جانب پانی کے ذخیرہ کرنے اور اخراج کا کنٹرول ممکنہ طور پر بالائی علاقوں کو حاصل ہوسکتا ہے۔ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے سے قبل اِن اندیشوں اور وسوسوں کا جواز موجود تھا اور یہی وہ دور ہے جب کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر تنازع شروع ہوا۔ تاہم موجودہ تناظر میں ریکارڈ سے یہ بات واضح ہے کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد صوبہ سندھ کے لئے پانی کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر کی طرح اگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ بات سندھ سمیت تمام صوبوں کے مفاد میں ہوگی۔
تازہ ترین