• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر صرف پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کالا باغ ڈیم بنایا جائے ، تب بھی واپڈا چوری چُھپے اِس ڈیم سے نہریں نکال کر زیریں علاقوں کیلئے دریا ئے سندھ کے پانی کے بہائو کو کم کر دیگا۔اس تصور کے حق میںمثال دی جاتی ہے کہ پنجاب نے 1985ء میں چشمہ جہلم لنک کینال یکطرفہ طور پر کھول لی تھی۔جہاں تک 31سال پہلے چشمہ جہلم لنک کینال میں پانی چھوڑنے کا تعلق ہے ،تو قارئین کو یہ بات مدِّ نظر رکھنی چاہئے کہ اُس وقت پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔ چشمہ جہلم لنک کینال سندھ طاس متبادل منصوبوں کے تحت تعمیر کی گئی تھی اور اِس نہر کو بھی تونسہ پنجند لنک کینال کی طرح سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں مشرقی دریائوں میں پیدا ہونے والی پانی کی کمی کا ازالہ کرنے کیلئے استعمال میں لایا جانا تھا۔ چشمہ اور تونسہ بیراج سے نکلنے والی اِن دو نہروں نے دریائے سندھ کو دریائے جہلم اور دریائے چناب سے ملاکر جنوبی پنجاب میں واقع نہری نظام کو پانی فراہم کرنا تھا۔
سال1985 ء میں گرمی کا موسم بہت خشک تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ دریائے جہلم اور دریائے چناب میں آنے والا پانی اتنا کم تھا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
جنوبی پنجاب کے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میںواقع اُن علاقوں میں جہاں ڈیموں اور تونسہ بیراج کے ذریعے آبپاشی کی جاتی ہے، صورتِ حال ابتر ہوگئی اور خریف کی فصلوں کی بوائی بُری طرح متاثر ہوئی۔ 28فروری 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں حکومتیں قائم ہوئے بہت تھوڑا عرصہ گزرا تھا۔ اسمبلیوں میں نہ تو فلور کراسنگ پر کوئی پابندی تھی اور نہ ہی عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کسی کے حق یا مخالفت میں ووٹ دینے پر کوئی قدغن تھی۔ ایسی صورت میں پانی کے حقوق کے تحفظ کیلئے صوبوں کی سیاسی قیادت سے وہاں کی عوام نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ محمد نواز شریف کا تعلق لاہور سے تھا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق نہ ہونے کی بنا پر ان پر اُس علاقے میں پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے شدید دبائو تھا۔ انہوں نے مسئلے کی نوعیت معلوم کرنے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ سے مذاکرات کئے تاکہ چشمہ جہلم لنک کینال جو 9 مئی 1985 ء کو بندکر دی گئی تھی، میں پانی کی فراہمی شروع کی جاسکے۔ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور معاملہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا گیا۔ اِسی دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے خشک سالی کے شکار جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژن کیلئے دو دو لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کر دیا۔ پنجاب اسمبلی میں 7تحاریک استحقاق پیش کی گئیں جبکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان نے پنجاب اسمبلی میںتندوتیز تقاریر کرتے ہوئے پانی کا مسئلہ حل نہ کرنے پر صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔دریں اثنا سندھ اسمبلی میں بھی استحقاق کی 3تحاریک پیش کی گئیں جن میں سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کے بیانات کا نوٹس لے۔اِس پس منظر میں وفاقی حکومت نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی ہدایت پر 8 جون 1985ء کی شام چشمہ جہلم لنک کینال کھول دی گئی، تاہم نہر میں بہت ہی کم یعنی 4ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کی اجازت دی گئی جبکہ اس نہر کی گنجائش 21 ہزار 700 کیوسک تھی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اُس وقت محمد خان جونیجو وزیراعظم، میرظفراللہ خان جمالی وفاقی وزیربرائے پانی و بجلی، قاضی عبدالمجید عابد وفاقی وزیر برائے خوراک و زراعت، کیپٹن یو اے جی عیسانی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری جبکہ وہاب ایف شیخ وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی تھے اور ان میں سے کسی کا تعلق بھی صوبہ پنجاب سے نہیںتھا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی جانب سے چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کے فیصلے کا حکم ریکارڈ پر ہے اور اِسکی تصدیق خود وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ نے کی، جنہوں نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’مجھے آج صبح بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے حکم پر نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا ’’ یہ حقیقت ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کو دوبارہ کھولنے سے قبل سندھ سے مشاورت نہیں کی گئی۔ اگرچہ یہ نہر ایک ایسے وقت میں کھولی گئی ہے، جب تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے، جس سے صوبہ سندھ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں‘‘۔(بحوالہ روزنامہ ڈان۔ 12جون 1985 ء۔اخبار کے تراشے کا عکس واپڈا کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔) وزیراعظم اُس وقت کے پیرصاحب پگارا کے مُریدین میں شامل تھے۔پیرصاحب پگارا ، وزیراعظم پر ہونے والی کسی بھی ممکنہ تنقید کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے تمام تر حقائق کے برعکس گورنر پنجاب پر یہ الزام عائد کردیا کہ انہوں نے یکطرفہ طور پر نہر کھولنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سندھ میں اس بیان کی بہت زیادہ تشہیر ہوئی۔
اِس معاملے کا مرکزی محور یہ تنازع تھا کہ سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر چشمہ جہلم لنک کینال کو کھولا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اِس نکتے پر اختلافِ رائے میں سندھ کے پاس یہ جواز موجود تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے تو سندھ اور پنجاب کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ لکھا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ اعتراض کریں گے تو اِس نہر میں پانی نہیں چھوڑا جائے گا۔ گو یہ معاہدہ ایک مخصوص مدت کیلئے تھا اور اس پر وفاقی حکومت کی جانب سے عبدالحفیظ پیرزادہ کے دستخط تھے مگر چونکہ خشک سالی کے غیرمعمولی حالات تھے تو معاملات کو وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اِس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کے اُس بیان کی سندھ میں بڑی منفی تشہیر کی گئی،جس میں مبینہ طور پر اُنہوں نے سندھ حکومت کے ویٹو کے حق کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس منفی تشہیر کے جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک طویل وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کا حتمی اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے۔ اپنے بیان میں اُنہوں نے سندھی بھائیوں کو ایک بارپھر یقین دہانی کرائی کہ اگر کبھی اُن کی نہریں خشک ہوئیں تو پنجاب اپنے لہو سے اُن کی اراضی سیراب کرے گا۔(بحوالہ روزنامہ ڈان۔12جون 1985 ء)
پانی کے معاملات پر عدم اتفاق ہوسکتا ہے اور اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ وفاق نے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی ،لیکن ریکارڈ دیکھنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وفاق کی کسی بھی اکائی نے یا وفاق کے زیرانتظام کسی بھی ادارے نے کبھی اپنے طور پر یکطرفہ کارروائی نہیں کی۔ پاکستان کے وفاقی نظام میںایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی صوبے کی مرضی کے خلاف کوئی منصوبہ منظو رکیا گیا ہو ۔وفاقی اکائیوں کی جانب سے کی جانے والی مخالفت ہی کے باعث کالاباغ ڈیم منصوبہ ابھی تک منظور نہیں ہوا۔ دوسری جانب دیامر بھاشا ڈیم کا منصوبہ جس کی تعمیرنہایت مشکل کام ہے، اُس پر عملدرآمدجاری ہے کیونکہ اس منصوبے کو وفاق کی چاروں اکائیوں کی منظوری حاصل ہے۔میں نے اِن تفصیلات کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ کالاباغ ڈیم منصوبے کے مخالفین اپنے دلائل میں ایسے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، جن سے آئین اور وفاق کے ڈھانچے کی نفی ہوتی ہے۔ اس تصورکے بارے میں کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو خیبر پختونخوا یا پنجاب اس ڈیم سے نہریں نکال لے گا، وضاحت کرتا چلوں کہ اول تو جیسا کہ قسط نمبر 9میں وضاحت کیساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ڈیم کے ماہرین اُسے پہلے ہی ناقابلِ عمل قرار دے چکے ہیں اور پھر بھی اگراس بارے میں سوچا جائے تو نہر تعمیر کرنے کے منصوبے کو درج ذیل مراحل سے گزرنا ہوگا:
الف۔منصوبہ بندی کا مرحلہ (دو سال)
ب۔منظوری کا مرحلہ اورٹھیکہ(ایک سال)
ج۔تعمیر کا مرحلہ (چار سال)
علاوہ ازیں اس طرح کے بڑے منصوبوں کی منظوری قومی اقتصادی کونسل میں دی جاتی ہے۔ جہاں صوبائی حکومتوں کی رضامندی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
یہاں اِس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ اب صوبہ خیبرپختونخوا کے جن علاقوں کو اِس مجوزہ نہر سے سیراب کرنا تھا اُس کیلئے بہت سال پہلے چشمہ رائٹ بینک لفٹ کینال کا منصوبہ منظور ہوا اور چند ہفتے پہلے اس پر وفاق اور صوبہ کے درمیان عمل درآمد کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسہ عام میں وزیراعظم پاکستان اِس کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔اب اس سوچ کا جواز ہی باقی نہیں رہا کہ کالا باغ ڈیم بننے کے بعد اِس میں سے نہر نکالے جانے کا خدشہ رہے گا۔
تازہ ترین