• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد سندھ کی سیلابہ اراضی سیراب نہیں کی جاسکے گی۔ حالانکہ سندھ کو اپنی سیلابہ اراضی سیراب کرنے کا حق تاریخی طور پر ہزاروں سال سے حاصل ہے۔
صوبہ سندھ کا یہ علاقہ ہر سال سیلابی موسم کے دوران سیراب ہوتا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کا زیادہ بہائو عموماً مئی اور جون کے مہینوں میں شروع ہوتا ہے اور یہ ستمبر، اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ اِس دوران دریا کا پانی کناروں سے باہر نکل آتا ہے جس کے باعث دریا کے دونوں کناروں پر واقع اراضی کو پانی مل جاتا ہے ۔ دریائی پانی کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی کے علاوہ پانی جذب ہونے کے باعث سیلابہ کے علاقے میں زیرِزمین پانی کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سیلابہ کے علاقے میں مُفت آبپاشی کی اِس سہولت میں کمی واقع ہوجائے گی؟ اس سوال کا جواب ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں بحث طلب نکتہ یہ ہے کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کتنی ہے اور اس میں پانی کب بھرا جائے گا؟ دریا کے زیریں علاقوں میں آباد لوگ اپنے علاقے میں پانی کی دستیابی کے بارے میں ہمیشہ خدشات کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم اگر پہلے تربیلا اور اب دیامربھاشا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے اُنہیںایسا کوئی خدشہ لاحق نہیں ہے تو پھر کالاباغ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے اُنہیں کیوںاور کیسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوسکتا ہے؟
یہ ضروری نہیں کہ ڈیم کی تعمیر سے دریا کے زیریں علاقوں میں پانی کے بہائو میں کمی ہی واقع ہو۔ ڈیم کے ذریعے پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اور بوقتِ ضرورت ذخیرہ کئے گئے پانی کو خارج کیا جاتا ہے۔ ڈیم اِسی بندوبست کیلئے ہی تعمیر کئے جاتے ہیں۔ اِس معاملے کی نوعیت سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اُن برسوںمیں پانی کے بہائو کا تجزیہ کیا جائے جب پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہیں تھا۔
اگر ہمیں ڈیم کی تعمیر کے بارے میں اتفاقِ رائے حاصل کرنا ہے، تو پھر پانی کی تقسیم کیلئے یہ معیار مقرر کرنا کہ پانی کے استعمال سے ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو، مناسب نہیں ہوگا ، بلکہ اس حوالے سے کی جانے والی اخلاص پر مبنی کسی بھی کوشش کا نکتہ آغاز یہ ہونا چاہئے کہ ہم سندھ طاس کے آبی معاملات کو زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی نظر سے دیکھیں۔
اِس پیچیدہ معاملے کو سمجھنے کیلئے سیلابی آبپاشی اور نہری نظام کے ذریعے دریائی پانی کے استعمال میں فرق کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ صدیوں سے دریائے سندھ میں آنے والاموسمی سیلاب اپنے اردگرد واقع کچے کے علاقے میں وسیع و عریض اراضی کو سیراب کرتا آیاہے۔یہ اراضی زیادہ تر سرکاری ملکیت میں ہے، یہاں قدرتی جنگلات افزائش پاتے ہیں، جنہیں غیرقانونی طور پر کاٹ کر آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال کے تدارک کیلئے حکومت کی جانب سے جنگلات کی افزائش کے حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اُنہیں 50 ایکڑ تک زمین اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہے کہ وہ اِس زمین کے ایک مخصوص حصے پر درخت اگائیں گے۔ یہ زمین ہر سال دریا میں آنے والے سیلاب یا اُس علاقے میں نصب ٹیوب ویلوں کی مدد سے سیراب کی جاتی ہے۔ پانی کا اقتصادی ماہر ہمیشہ پانی کے سب سے فائدہ مند استعمال کو ذہن میں رکھتا ہے۔ لہٰذا اُس کی نظر میں سیلابی آبپاشی پانی کا سراسر ضیاع ہے، لیکن کچےکے علاقے میں سیلاب باعثِ نعمت سمجھا جاتا ہے ۔
فلڈ اری گیشن دو سطحوں پر مُفت آبپاشی ہے۔ پہلی اس طرح کہ اس کا شمار صوبوں کے درمیان پانی کے مختص حصے کے طور پر نہیں کیا جاتا۔لہٰذا سندھ میں ہر اُس منصوبے کو شدید تشویش کی نظر سے دیکھا جائے گاجو دریا کے پانی کو اُس کے کناروں تک محدود کر دے،کیونکہ ایسے منصوبوں کے بارے میں یہ تصور کیا جائے گا کہ ان منصوبوں کی تعمیر سے سیلاب کے دنوں میں سندھ کو اضافی پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اضافی پانی سندھ کے اُس حصے کے علاوہ ہے جس کا تعین پانی کی تقسیم کے معاہدے میں کیا جاچکا ہے۔یہی وہ سب سے اہم نکتہ ہے ، جس کا دریائے سندھ کے بالائی علاقوںمیں ڈیم کی تعمیر کے بارے میں ہونے والی بحث و تمحیص میں بہت زیادہ ذکر نہیں کیا جاتا ۔ علاوہ ازیں فلڈ اری گیشن کے نتیجے میں فائدہ اُٹھانے والے لوگوں کو آبیانہ کی مد میں حکومت کو کوئی ادائیگی نہیں کرنا پڑتی۔ایک اور فائدہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح بھی سیلاب کے باعث ہموار رہتی ہے۔ بعض آبی ماہرین اِسی بنیاد پر یقین رکھتے ہیں کہ کچا کے علاقے میں دریا کے بلا روک ٹوک بہائو کے باعث ،آبپاشی کی مفت سہولت ، متاثر ہونے کے ڈر کی وجہ سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔
صوبہ سندھ نے نومبر 1984 ء میں اُس وقت سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا جب چیئرمین واپڈا نے کابینہ کو کالاباغ ڈیم پروجیکٹ کے بارے میں بریفنگ دی۔ کابینہ کے اجلاس کی کارروائی کے ریکارڈ کے مطابق ’’گورنر سندھ نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ مجوزہ ڈیم اور اس سے متصل آبپاشی کے نظام کی تعمیر کی بدولت سندھ میں پانی کی صورتِ حال بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔‘‘ مذکورہ بیان سے بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ کالاباغ ڈیم پراجیکٹ میں اس علاقے کی تاریخی ضرورت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ کیا یہ بات درست ہے؟ نہیں ، اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن تیار کرتے ہوئے واپڈا سیلابہ کے علاقے کی ضروریات سے آگاہ تھا۔ لہٰذا اُس نے نہ صرف سیلابہ کے علاقے کو سیراب کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا بلکہ اُسے کالاباغ ڈیم میں پانی بھرنے کے عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پر بھی شامل کیا۔ کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹ نے اِس معاملے کا جائزہ لینے کیلئے تفصیلی مطالعات کئے۔ کنسلٹنٹ نے اپنے مطالعات کے نتائج پر مبنی رپورٹ جون 1988 ء میں پیش کی۔ یہ رپورٹ سندھ کی حکومت کو بھی ارسال کی گئی۔ رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے بہائو میں میں3 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا چھوڑنے پر سیلابہ کے پورے علاقے کو آبپاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سندھ کی حکومت نے اس بات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اِسے رد کر دیا۔
معروف آبی ماہر اور کالم نویس جناب ادریس راجپوت اُس وقت سندھ حکومت میں محکمہ آبپاشی کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ انہوں نے 9فروری 1988 ء کو واپڈا کے جنرل منیجر کے نام 5 صفحات پر مشتمل ایک طویل مکتوب تحریر کیا، جس میں اُنہوں نے کہا کہ سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے پانی کی جس مقدار کا تعین کیا گیا ہے، وہ کم ہے۔ سندھ کی حکومت نے اس بارے میں ایک نئی اسٹڈی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ اسٹڈی کا مطالبہ اُن 9 نکات میں بھی شامل تھا، جو مئی 1989 ء میں کالاباغ ڈیم منصوبے کے پی سی II- کو زیرِ غور لانے کے دوران ایکنک کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی کو پیش کئے گئے تھے۔ سیلابہ کے علاقے کو سیراب کرنے کیلئے پانی کی مطلوبہ مقدار کا تعین کرنے کیلئے مزید کوئی اسٹڈی نہیں کی گئی کیونکہ 1990 ء میں یہ منصوبہ عملی طور پر فائلوں کی نذر کر دیا گیا۔
یہ بات واضح ہے کہ اس منصوبہ کی تعمیر کے بارے میں مستقبل کے کسی بھی معاہدے میں سیلابہ کے علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔ خوش قسمتی سے اس بات کا تعین کرنے کیلئے اب نئی ٹیکنالوجی منظرِعام پر آچکی ہے۔ دریائے سندھ میں زیادہ پانی کے بہائو کے موسم میں سیلابہ کے علاقے کیلئے درکار پانی کی مقدار کا بہتر اندازہ لگانے کیلئے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
اوپربیان کی گئیں معروضات سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے ذہن میں پایاجانے والا یہ خدشہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کیلئے پانی نہیں بچے گا، درست نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر دیامربھاشا کے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے سے پانی کے بہائو میں کمی نہیں آئے گی تو کالاباغ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے پانی کے بہائو میں کیسے کمی آسکتی ہے۔ البتہ کالاباغ ڈیم میں پانی کی بھرائی کا دورانیہ اور بعد ازاں پانی کی تقسیم ایسے عوامل ہوسکتے ہیں جن سے سیلاب کے دنوں میں زیریں علاقوں میں پانی کا بہائو متاثر ہو۔
تازہ ترین