• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
کالاباغ ڈیم کے بارے میں ایک اور واہمہ جسے زیریں سندھ کے لوگ یقین کی حد تک درست خیال کرتے ہیں ، وہ کوٹری بیراج سے زیریں جانب اس منصوبے کے ماحولیات پر بُرے اثرات سے متعلق ہے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبہ ساز اس بات سے لاعلم تھے کہ کوٹری بیراج کے زیریں علاقوں میں ماحولیات اور وہاں مقیم لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کے لئے کتنا پانی درکار ہوگا۔ کوٹری بیراج دریائے سندھ پر آبپاشی کے لئے آخری ہیڈ ورکس ہے جس کے بعد دریا سمندر میں جاگرتا ہے ۔ دریا کے اس حصے میں پانی کا بہائو یکساں نہیں رہتا ، لہٰذا اس علاقے میں پانی کی کم از کم ضروریات کا تعین ہمیشہ اختلاف کا باعث رہا ہے۔ نومبر1984ء میںجب کالاباغ ڈیم منصوبہ پہلی بار کابینہ میں پیش کیا گیا تو گورنر سندھ کی جانب سے اِ س منصوبے کے بارے میں جو سوالات اٹھائے گئے ، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اِس منصوبے کی تعمیر سے ڈیم کے زیریں جانب دریائے سندھ کے پانی کے بہائو پر کیا اثر پڑے گا۔ ان سوالات کا جائزہ لینے کے لئے اُس وقت کی وفاقی کابینہ نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وزارتی کمیٹی تشکیل دی ۔ جولائی 1986ء میں واپڈا نے سندھ حکو مت سے باضابطہ طو ر پر درخواست کی کہ اِ س حوالے سے معلومات اور اعدادو شمار مہیا کئے جائیں تاکہ کابینہ کمیٹی کے لئے سیلابہ کے علاقے پر کالاباغ ڈیم کے اثرات پر مبنی ورکنگ پیپر تیار کیا جاسکے ۔ واپڈا کویہ اعدادوشمار مہیا کرتے وقت صوبہ سندھ نے دریا کی کھاڑی میںساحلی علاقوں کے سمندر بُرد ہونے کا معاملہ بھی اُٹھا دیا ۔ نتیجتاً کالاباغ ڈیم کے کنسلٹنٹ نے سندھ کے مذکورہ علاقوں کا دورہ کیا اور صورت ِ حال کا جائزہ لے کر اس بارے میں ابتدائی ورکنگ پیپر تیار کیا۔’’سیلابہ علاقے میں کاشتکاری پر ممکنہ اثرات اور دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی ‘‘ کے عنوان سے تیار کی گئی یہ رپورٹ جنوری 1988ء میں سندھ حکومت سمیت متعلقہ فریقین کو ارسال کی گئی۔ رپورٹ کے الفاظ کچھ یوں ہیں’’جہاں تک دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی کے چڑھ آنے کا تعلق ہے، تودستیاب اعدادوشمار سے یہ واضح ہے کہ کھاڑی میں سمندری لہروں کے مضر اثرات اگھی مانی(Aghimani) سے زیریں جانب علاقوں تک محدود ہیں۔ اگھی مانی ٹھٹّھہ۔ سجوال پُل سے 3میل جبکہ کوٹری سے 87 میل زیریں جانب واقع ہے۔ یہی صورتِ حال موسمِ سرما کے دوران بھی برقرار رہتی ہے اور اس موسم میںکوٹری بیراج سے زیریں جانب دریائے سندھ میں پانی کا بہائو نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ 1953-54ء میں کئے گئے ایک فضائی سروے کے نتیجے میں کم و بیش سجوال تک نمکیات کے ڈھیر دکھائی دیئے جبکہ مجموعی طور پر اس مقام تک نباتات کے آثار بھی مفقود تھے۔ جب یہ سروے کیا گیا تو اُس وقت تک دریائے سندھ پر کوئی آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا گیا تھایعنی اس دوران موسم گرما میں پانی کا بھرپور بہائو بھی سمندری پانی کو واپس دھکیلنے کے لئے میسر تھا۔ کالاباغ ڈیم کا موسم سرما میں دریائی پانی کے بہائو پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا، جبکہ موسم گرما کے دوران بھی دریائے سندھ کی کھاڑی میں سیلابی پانی کی اوسطاً مقدار پہلے ہی کی طرح دستیاب رہے گی۔ صرف خشک سالوں (یعنی پانی کی کم دستیابی) کے دوران کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کے انتہائی زیادہ(Peak) اخراج میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوسکتی ہے۔‘‘ سندھ حکومت نے اپنے ابتدائی تبصرے میں کالاباغ ڈیم کے کنسلٹنٹ کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئےخط میں کہا کہ:
’’سمندر کے کھارے پانی کے اثرات کے بارے میں اخذ کیا گیا نتیجہ بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے ۔ ماضی میں سیلابی موسم کے دوران پانی کوٹری بیراج سے زیریں جانب خارج کیا جاتا رہا ہے ، جس کی وجہ سے دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی کو روکنے میں مدد ملی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کے اخراج میں کمی واقع ہورہی ہے جس کے نتیجے میں سمندری نمکیات کے اثرات مزید نمایاں ہوجائیں گے۔ ایسی صورت ِ حال میں مناسب اقدام یہی ہوگا کہ سمندر کے کھارے پانی کے اثرات کو مکمل طور پر ردّ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس بارے میں سائنسی بنیاد پر متعلقہ اعدادو شمار اکٹھا کرنے کی غرض سے پروگرام وضع کیا جانا چاہئے اور اگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے کہ سمندر کا کھارا پانی دریائے سندھ کی کھاڑی میں بالائی جانب بڑھ رہا ہے تو وفاقی حکومت کے اخراجات سے دریائے سندھ کے اوپر موزوں مقامات پر سمندری پانی روکنے کے لئے اسٹرکچر تعمیر کئے جائیں۔‘‘
خط کے جواب میں واپڈا نے اپنی رائے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی داخل ہونے کا معاملہ واضح اور طے شدہ ہے۔اپنی اس رائے کے باوجود واپڈا نے سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی و برقیات کی اس بات سے اتفاق کیا کہ دریائے سندھ کی کھاڑی میں واقع علاقوں اور اس سے متصل ساحلی پٹی میں ہمہ جہت ماحولیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لئے سائنسی مشاہدات پر مبنی پروگرام شروع کیا جاسکتا ہے۔‘‘
تاہم سندھ حکومت کو واپڈا کی یہ وضاحت معقول دکھائی نہیں دی اور اُس نے اصرار کیا کہ ’’جب کوٹری بیراج سے نچلی جانب پانی نہیں چھوڑا جاتا تو سمندری پانی دریائے سندھ کی کھاڑی میں بالائی جانب زیادہ فاصلے تک پھیل جاتا ہے۔ اس کے برعکس جن دنوں کوٹری بیراج سے نچلی جانب پانی چھوڑا جاتا ہے ، اُن دنوں ایسی صورتِ حال نہیں ہوتی۔‘‘
کالاباغ ڈیم پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ نے سندھ حکومت کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اس بارے میں وضاحت پیش کی کہ ’’اس امر کے باوجود کہ کوٹری بیراج سے نچلی جانب ایک طویل عرصے سے کسی بھی ایک سال کے دوران پانی کا بہائو 6ماہ سے زیادہ برقرار نہیں رہا ، لیکن اگھی مانی کے مقام پر نصب پیمائشی آلہ نے اُس علاقے میں کھارے پانی کی سطح میں کسی ایسی تبدیلی کی نشاندہی نہیں کی ، جو دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی میں اضافہ کی وجہ سے رونما ہوئی ہو۔‘‘
1989ء میں سی ڈی ڈبلیو پی/ ایکنک کے اجلاس میں کالاباغ ڈیم منصوبے کے پی سی II-پر بحث کے دوران سندھ حکو مت نے مزید تحقیق کا مطالبہ کیا ، جس کا مقصد بدیہی طور پر کالاباغ ڈیم پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ کے نتائج کی از سرِ نو توثیق تھا۔ چنانچہ مزید تحقیقی مطالعات کی ضرورت کا جائزہ لینے کے لئے ٹیکنیکل کمیٹی قائم کر دی گئی۔
مارچ 1990ء میں ٹیکنیکل کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ، لیکن اس سے قبل ہی سند ھ حکومت نے مذکورہ کمیٹی کے سربراہ یعنی چیئرمین واپڈا کو اپنے 9نکات بھجوا دیئے ۔
تاہم ٹیکنیکل کمیٹی اِ س نتیجے پر پہنچی کہ مزید تحقیق اور مطالعات اُس کے دائرۂ اختیار میں نہیں آتے۔ جون 1990ء میں سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی و برقیات کے سیکرٹری نے چیئرمین واپڈا کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ’’ایکنک کی ہدایت پر قائم کمیٹی نے اپنے اجلاس میں نہ تو پہلے سے کئے گئے مطالعات پر غور و خوض کیا اور نہ ہی مستقبل میں اضافی تحقیقی مطالعات کا جائزہ لیا…اس کے چند ماہ بعد مارچ 1991ء میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کئے گئے جس میں ماحولیاتی تحفظ کے لئے کوٹری بیراج سے زیریں جانب پانی کے پابندی یا باقاعدگی کے ساتھ اخراج کی ضرورت کو بجا طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ پانی کے معاہدے کے ساتویں پیرا گراف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندر کے کھارے پانی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے پانی کی کم سے کم مقدار کا تعین کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔ سندھ نے اِس مؤقف پر اصرار کیا کہ مذکورہ مقصد کے لئے 10ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہوگی اور اس بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ۔ جبکہ دیگر مطالعات میں درکار پانی کی نسبتاً کم یا زیادہ مقدار کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیاہے کہ کوٹری سے زیریں جانب اخراج کے لئے درکار پانی کی کم از کم مقدار کا تعین کرنے کے لئے مزید مطالعات کئے جائیں گے۔‘‘
محترم قارئین ! میں نے واپڈا اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کو آپ کے سامنے تفصیلاً بیان کیا ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ زیر غور تھا تو کوٹری کے زیریں علاقوں میں ماحولیاتی اثرات پر کافی بحث و تمحیص کی گئی ۔بالآخر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے تاریخی معاہدے میں کوٹری سے نچلی جانب خارج کرنے کے لئے پانی کی کم از کم مقدار کا تعین کرنے کے لئے اضافی مطالعات کی ضرورت کوبھی تسلیم کر لیا گیا۔ لہٰذا یہ معاملہ کبھی بھی کالاباغ ڈیم منصوبے کے پالیسی سازوں سے اوجھل نہیں رہا ۔یہ بات بھی عیاں ہے کہ جب بھی آبی مسائل کے بارے میں قومی سمجھوتے کی طرف پیش قدمی کی گئی تو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے مسائل کو عملی طور پر حل کرنا ضروری ہوگا۔
تازہ ترین