• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 2016-17ء کے وفاقی بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس اور نان فائلرز کے تصور کو وسعت دے کر اسے ضابطے کی شکل دی ہے۔ اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ ٹیکس چوری کرتے رہو اور ایف بی آر کے مروجہ قوانین کو پامال کرتے ہوئے بے شک انکم ٹیکس کے گوشوارے بھی داخل نہ کرو مگر ان مجرمانہ سرگرمیوں کی تھوڑی سی قیمت دے دو۔ یہ قیمت بہرحال اس رقم سے بہت کم ہوگی جو ایمانداری سے ٹیکس اداکرنے کی صورت میں اسے ادا کرنا پڑتی۔ بجٹ تجاویز میں یہ بات پس پشت ڈال دی گئی ہے کہ ٹیکس چوری کرنا اور مقررہ رقم سے زائد سالانہ آمدنی ہونے کے باوجود ٹیکس کے سالانہ گوشوارے داخل نہ کرنا مجرمانہ فعل ہے۔ ان تجاویز کی منظوری سے انکم ٹیکس کا نظام عملی طور پر ختم ہوجائے گا کیونکہ براہ راست ٹیکسوں کی مد میں وصولی کا تقریباً 75فیصد اب ود ہولڈنگ ٹیکسوں کے ذریعے ہوگا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس آمدنی پر نہیں ہوتا چنانچہ دولت مند لوگ اس نظام سے خوب فائدہ اٹھائیں گے جبکہ ان افراد سے بھی یہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جن کی سالانہ آمدنی 4لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔ یہ سب نہ صرف مسلم لیگ (ن) سمیت دوسری اہم سیاسی پارٹیوں کے منشور سے متصادم ہے بلکہ آئین پاکستان کی شقوں 3؍ اور 38(ای) کی روح سے بھی متصادم ہے۔ یہ معیشت کے لئے بھی تباہ کن ہے۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور ٹیکس کی چوری سے کمائی ہوئی دولت کو انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کے تحت بغیر قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے عملاً قانونی تحفظ فراہم کرنے کا محفوظ راستہ موجود ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ اس شق کو جو بلاشبہ ایک مالیاتی این آر او ہے بجٹ میں منسوخ کردیا جائے گا۔ بدقسمتی سے یہ شق برقرار رکھی گئی ہے۔ گزشتہ 60برسوں سے مختلف حکومتیں ٹیکسوں کی چوری روکنے کے دعوے کرتی رہیں مگر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔ اس مدت میں کم از کم 9بڑی ٹیکس ایمنسٹی بھی دی گئی ہیں جو ایک عالمی ریکارڈ ہی ہوگا۔ موجودہ حکومت کے دور میں معیشت کی کارکردگی کے ضمن میں بجٹ میں کئے گئے کچھ دعوئوں کی حقیقت نذر قارئین ہے۔
(1) ’’2015-16ء میں معیشت کی شرح نمو 8برسوں میں سب سے زیادہ ہے‘‘۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ (i) گزشتہ 3برسوں میں لگاتار حکومت کے اپنے مقرر کردہ شرح نمو کے اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ (ii) موجودہ حکومت کے 3برسوں کی اوسط سالانہ شرح نمو پاکستان کی گزشتہ 55برسوں کی اوسط سالانہ شرح نمو سے کم رہی۔ (iii) گزشتہ 3برسوں کی اوسط سالانہ شرح نمو جنوبی ایشیا کے 7ممالک کی اوسط سالانہ شرح نمو سے کم رہی۔
(2) ’’تین برسوں میں ایف بی آر کے محصولات میں 60فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا‘‘۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ حکومت کے پہلے دو برسوں میں خود حکومت کے اپنے مقررہ کردہ اہداف کے مقابلے میں وصولی 429؍ارب روپے کم رہی۔ بجٹ تقریر کے مطابق سیلز ٹیکس ریفنڈز جون 2016ء کے بعد کئے جائیں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی کو مصنوعی طور پر بڑھا کر دکھلایا جائے گا۔
(3) ’’اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 40برسوں کی کم ترین شرح پر ہے‘‘۔ یہ بات تو فخریہ کی گئی ہے مگر یہ نہیں بتلایا گیا کہ اس فیصلے سے بینکوں میں رقوم جمع کرانے والے کروڑوں افراد اور قومی بچت اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والے لاکھوں افراد بشمول بزرگ شہری، بیوائیں اور معذور افراد بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
(4) ’’ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ اس پاکستان کی تعمیر ہے جس کا خواب قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا‘‘۔ ہم عرض کریں گے کہ قائد نے تو بچتوں کی اہمیت کا احساس دلایا تھا لیکن بجٹ تقریر میں 2018-19ء تک کے بھی معاشی اہداف میں بچتوں کی شرح کا ہدف سرے سے شامل ہی نہیں ہے حالانکہ ماضی میں مختلف حکومتیں اور اسٹیٹ بینک بچتوں کی شرح میں اضافے کو بنیادی اہمیت دیتی تھیں۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحٰق ڈار نے نومبر 1998ء میں قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے تحریری طور پر وعدہ کیا تھا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے داخلی بچتوں کو 12فیصد سے بڑھا کر 16فیصد تک لے جایا جائے گا۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ تناسب گرا ہے اور اب یہ صرف 8فیصد ہے جس کو قومی المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ دو بڑے بینکوں کی نج کاری کے بعد بینکاری کے شعبے میں غیرملکیوں کا حصہ بڑھا ہے۔ اب بینک حکومت و اسٹیٹ بینک کے تعاون سے اپنا منافع حیرت انگیز تیز رفتاری سے بڑھا رہے ہیں مگر کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع کو تیزی سے گرا کر بچتوں کی شرح کم کرنے اور نجی شعبے کے بجائے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو بڑے پیمانے پر قرضے دے کر معیشت کی شرح نمو سست کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ بات پریشان کن ہے کہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں یہ ناقابل فہم دعویٰ کیا ہے کہ ’’ہمارے مالیاتی سیکٹر نے قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ یہ بات واضح ہے کہ یہ کارکردگی بینکوں کی نج کاری کی مکمل ناکامی کا مظہر ہے۔
(5) بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کیا ہے اور ملک معاشی ترقی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ اس قسم کے غیرحقیقت پسندانہ دعوے 1997ء، 1999ء اور 2008ء میں برسر اقتدار آنے والوں کی طرف سے بھی کئے گئے تھے۔ مشرف حکومت نے اقتصادی معجزہ دکھانے کا دعویٰ کیا مگر ہم نے ان ہی کالموں میں اس دور کی کارکردگی کو ’’ترقی معکوس، منفی ترقی اور بلبلہ‘‘ قرار دیا تھا۔ موجودہ حکومت کے دور میں معیشت کے کچھ شعبوں میں جو مصنوعی و عارضی بہتری نظر آرہی ہے وہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا ثمر یقیناً نہیں ہے۔ اس کے عوامل میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی، ملکی و بیرونی قرضوں کا بے تحاشہ حصول، منفعت بخش اداروں کے حصص کی فروخت، سعودی امداد اور اکائونٹنگ جادوگری شامل ہیں۔
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ آئین پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے منشور کی روشنی میں بجٹ میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات ضروری ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بات صوبوں کے بجٹ پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر یہ تبدیلیاں نہ کی گئیں تو نہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے ملک کی قسمت نہیں بدلے گی بلکہ موجودہ مالی سال میں برآمدات و زرعی شعبے میں کچھ بہتری کے باوجود معیشت مشکلات کا شکار رہے گی۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ 2019ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے ایک اور نجاتی پیکیج لینے کا تباہ کن فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔
تازہ ترین